March 29th, 2024 (1445رمضان19)

شاگردوں کا امتحان


انصاف کرنے والے ایک قاضی صاحب نے اپنے چار شاگردوں کا امتحان لینے کے لئے اُن کے سامنے یہ کہانی رکھی:
’’ایک شخص کے گھر مہمان آئے۔ اس نے اپنے ملازم کو دودھ لانے کے لیے بھیجا۔ ملازم نے گوالے سے دودھ لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ دُور ایک چیل ایک سانپ پر جھپٹی اور اسے پنجوں میں دبوچ کر اڑگئی۔ یہی چیل اڑتے ہوئے جب اس راستے کے اوپر سے گزری جہاں ملازم دودھ کا برتن سر پر رکھے جارہا تھا تو سانپ کے زہر کے چند قطرے برتن میں گر گئے۔ دودھ گھر میں آیا تو اس سے کھیر پکائی گئی۔ یہ زہریلی کھیر مہمانوں نے کھائی تو ہلاک ہوگئے‘‘۔
’’قاضی صاحب نے کہانی سنا کر اپنے شاگردوں کی طرف دیکھا اور کہا :
آپ یہ بتائیں کہ اس معاملے میں مجرم کون ہے ؟ سزا کسے دی جائے؟ آپ اپنے فیصلے الگ الگ کاغذ پر لکھ کرمجھے دیں۔‘‘
پہلے شاگرد نے اپنے فیصلے میں لکھا :’’موت کی سزا ملازم کو ملنی چاہیے۔اسے برتن ڈھانپ کر لانا چاہیے تھا‘‘۔
قاضی صاحب نے فیصلہ پڑھ کرکہا:’’فیصلہ انصاف کے مطابق نہیں ۔ یہ ٹھیک ہے دودھ کے برتن کو ڈھانپنا چاہیے۔ لیکن محض برتن نہ ڈھانپنے کی سزا موت نہیں ہوسکتی ۔‘‘
دوسرے شاگرد نے لکھا ’’کسی کو بھی قصور وار قرارنہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ غلطی زیادہ سے زیادہ چیل کی ہوسکتی ہی جو سانپ کو لے کر اڑی جارہی تھی ۔ لیکن حیوان کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے کہنا پڑتا ہے کہ مہمانوں کا مقدرہی یہ تھا۔
قاضی صاحب نے فرمایا:’’یہ کہنا کہ مقدر یہی تھا اور قسمت یہی تھی ،کسی مسئلہ کو حل نہیں کرتا ۔ قاضی کا فرض ہے کہ حق اور باطل کا پتا چلائے۔‘‘
تیسرے شاگرد کا فیصلہ تھا:’’سزا صاحبِ خانہ کو دی جائے۔اسے دودھ یا کھیرکو پرکھنے کے بعد مہمانوں کے سامنے لانا چاہیے تھا ‘‘۔
قاضی صاحب نے کہا ’’ایسا کوئی حکم نہیں ہے کہ کھانا ضرورچکھنے یا پرکھنے کے بعد مہمانوں کے سامنے رکھا جائے ۔اگر صاحبِ خانہ کو گھر میں کسی پر شک نہیں اور اسے چیل اور سانپ کی واردات کا علم بھی نہیں تو اس کے لیے چھان بین ضروری نہیں تھی۔‘‘
اب قاضی صاحب نے چوتھے شاگرد کا فیصلہ پڑھا ۔اس نے لکھا تھا :’’اس مسئلے کو اس صورت میں کھڑا کرنا ہی غلط ہے۔ اگر آسمان پر اڑتی ہوئی کسی چیل کے پنجوں میں پھنسے کسی سانپ کے منہ سے زہر کے قطرے دودھ میں گرے اور نہ ملازم کو پتا چلا اور نہ کسی دوسرے فرد نے دیکھا تو مہمانوں کی موت کے بعد یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی چیل تھی اور کوئی سانپ تھا اور اس طرح زہر کے قطرے گرے تھے اور یوں دودھ زہریلا ہوا تھا۔ میرا پہلا سوال یہی ہے کہ یہ بات کس نے بتائی ؟ میں اس معاملے میں ہر شخص پر سوال کروں گا اور اس کے جواب کا تجزیہ کروں گا۔
اگر یہ کہانی دودھ بیچنے والے گوالے نے گھڑی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا دودھ ہی خراب تھا اور وہ ایک زہریلی چیز بیچنے کا مجرم ہے۔ ورنہ اس نے چیل اور سانپ کی بات پہلے کیوں نہیں بتائی؟اگر دودھ لانے والے ملازم نے یہ قصہ سنایا ہے تو اسے بھی جواب دینا پڑے گا کہ وہ مہمانوں کی موت تک اس بات کو کیوں چھپائے رہا۔ اسی طرح یہ کہانی اگر باورچی نے سنائی ہے یا گھر کے کسی دوسرے فرد نے یہ افسانہ تراشا ہے تو اسے بھی اسی سوال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ پہلے یہ بات نہ بتانے کا مطلب ہے کہ اسے مہمانوں سے کوئی عداوت یا دشمنی تھی اور وہ ان کی موت کا منتظر تھا ۔اس صورت میں تو یہ سوال بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا عجب، زہر اس نے خود ملایا ہو، اور دھوکا دینے کے لیے یہ داستان تصنیف کردی ہو۔ تو اس پورے معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے میں معلوم کروں گا کہ چیل اور سانپ کی کہانی کس نے گھڑی ہے۔ میرے نزدیک جہاں انصاف کرنے میں دیر کرنا انصاف کے خلاف ہے، وہاں انصاف کرنے میں ایسی جلد بازی بھی صحیح نہیں کہ اصل بات چھپی رہ جائے۔ منصف کا فرض ہے کہ جھوٹ اور سچ میں تمیز کرے اور مجرم اور بے گناہ کو الگ الگ کردے۔ انصاف فرضی ملزموں کو نشانہ بنانے سے نہیں بلکہ اصل مجرم پر ہاتھ ڈالنے سے ہوتا ہے ۔‘‘
’’سبحان اللہ ‘‘ ۔قاضی صاحب نے کہا میں نے جو بات معلوم کرنے کے لیے یہ کہانی سنائی تھی، خدا کا شکر ہے وہ سامنے آگئی۔‘‘