April 19th, 2024 (1445شوال11)

انوکھی شہزادی

پیارے بچو، آپ نے شہزادوں اور شہزادیوں کی بہت سی کہانیاں سنی ہوں گی ۔ ا ن کے محلات ،زیورات، طرح طرح کے کپڑوں اور کھانوں کا سن کر ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی اور دنیا کے لوگ ہیں۔

لیکن آج ہم آپ کو ایک انوکھی شہزادی کی کہانی سناتے ہیں۔

شہزادی اپنے گھر میں سب سے چھوٹی تھی ۔ سب کی پیاری، سب کی لاڈلی، لیکن پیار نے نہ اس کو بدتمیز بنایا اور نہ ہی ضدی ۔

شہزادی کو اپنے ابو سے بہت محبت تھی۔ وہ شکل اور انداز میں بالکل اپنے ابو سے ملتی جلتی تھی۔ اگر اس کے ابو پریشان ہوتے تو وہ بھی پریشان ہوجاتی۔ اگر کوئی اس کے ابو کو ستاتا تو وہ اداس ہوجاتی ۔

شہزادی نہ کھیل کود کی شوقین تھی اور نہ ہی اچھے اچھے کھانوں، زیوراورکھلونوں کی ۔ بلکہ بچپن ہی سے سنجیدہ تھی ۔اسے معلوم تھا کہ ا س کے ابو بہت بڑے آدمی ہیں۔ بڑے آدمیوں کو بڑے کام کرنے ہوتے ہیں ۔ اس میں مشکل بھی آتی ہیں۔ اور اس مشکل کا مقابلہ پورے گھر کو مل کر کرنا ہوتا ہے۔ اس کی امی بھی ایسی تھیں۔ ہر کام میں ابو کا ساتھ دینے والی ،ہمت بندھانے والی۔ ایک بار دشمنوں نے شہزادی اور اس کے سارے خاندان کو ایک گھاٹی میں بند کردیا۔ وہاں کھانا پینا کچھ بھی نہیں تھا ۔ شہزادی نے اپنے گھر اور خاندان والوں کے ساتھ پتے ابال ابال کر کھائے اور گزاراکیا۔ کچھ عرصے بعد اللہ نے شہزادی اور اس کے گھر والوں کو اس مشکل سے نجات دی۔

تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ شہزادی کی امی کاانتقال ہوگیا ۔ شہزادی بہت اداس ہوگئی۔ دشمن اب اس کے ابوکو بھی ستانے لگے۔ تنک آکر انہوں نے اپنا گھر چھوڑدیا اور سب کے سب دوسری جگہ جاکر رہنے لگے۔ یہاں حالات اچھے تھے۔ اب شہزادی بھی بڑی ہوگئی تھی ۔

شہزادی کے ابو نے اس کی شادی ایک ایسے نوجوان لڑکے سے کی جو بہت بہادر اور عقل مند تھا۔ لیکن نہ اس کے پاس پیسے تھے،نہ ہی اچھا گھر ۔

شہزادی کے شوہر محنت مزدوری کر کے کما تے تھے تو بڑی مشکل سے کھانے پینے کا انتظام ہوتا ۔

شہزادی کے ابو نے اسے سمجھا دیا تھا کہ میں نے تمھاری شادی اپنے خاندان کے سب سے اچھے آدمی سے کی ہے، اس لیے مال ودولت کی فکر نہ کرنا ۔ شہزادی نے اپنے ابو کی بات کو یاد رکھا ۔

وہ صبر اور شکرسے گزاراکرتی رہی۔ گھر میں ایک چمڑے کا تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری تھی ،پانی کا ایک مشکیزہ تھا اور چادر جس کو سوتے وقت آدھی نیچے اور آدھی اوپر اوڑھ لیتے۔

شہزادی کو اللہ نے دوپیارے پیارے بیٹے دیے۔اب تو اس کا سارا وقت گھر کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال میں گزرتا ۔ وہ جھاڑولگاتی ،کنویں سے ڈھول کھینچ کر پانی لاتی ۔ چکی پستی ،آٹا کوندھتی اور روٹی پکاتی۔ اتنے محنت والے کام کرنے کی وجہ سے اس کے ہاتھوں میں نشان پڑگئے اور جسم میں تکلیف رہنے لگی تو وہ اپنے شوہر کے مشورے سے اپنے ابوکے پاس کام میں مدد کرانے کے لیے خدمت گار مانگنے گئی ۔ شہزادی کے ابونے اپنی لاڈلی بیٹی کو سمجھایاکہ غلام تو کچھ اورضرورت مند لوگوں کے لیے ہیں ۔اور اسے اللہ کے ذکر کا مشہورہ دیا۔

وہ واپس لوٹی تو اس نے اس بات کو یاد رکھا ۔ صبح سے شام تک کام کے دوران اس کے ہونٹ اللہ کے ذکر سے ہلتے رہتے تھے ۔

شہزادی کے ابو جب بھی سفر سے آتے تو سب سے پہلے اس سے ملنے جاتے ۔ شہزاد ی کا ماتھا چومتے ، اس کے لیے دعا کرتے۔

شہزادی بھی انہیں اپنی جگہ بٹھاتی اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھتی ۔

ایک روزگھر میں سب کا روزہ تھا ۔ پوے دن کی محنت کے بعد شہزادی کے شوہر کو تھوڑی سی جَو ملی۔ اس نے اسے پیس کر آٹاگوندھا اور روٹی بنانے لگی ۔افطار کا وقت ہوا تو ایک فقیر آگیا ۔ شہزادی نے سارا کھانا اسے دے دیا ۔اور سارے گھر نے پانی سے روزہ افطار کیا ۔اگلے دن پھر سب کاروزہ تھا ۔عین افطار کے وقت ایک یتیم آگیا اور سارا کھانا اسے دے دیاگیا ۔ پھر تیسرے دن یہی ہوا۔ افطار کے وقت ایک قیدی آگیا ۔ایک بار پھر سارا کھانا دے دیا گیا اور شہزادی کے گھر سب نے پانی سے روزہ افطارکیا ۔

پیارے بچو!آپ ضرور حیران ہوں گے کہ شہزادی کون تھی اور اس کا تعلق کس ملک سے تھا؟ہم آپ کو بتاتے ہیں یہ انوکھی شہزادی دنیا کی عام شہزادی نہ تھی بلکہ یہ ہمارے پیارے نبی محمد کی لاڈلی بیٹی فاطمہ تھی ۔

فاطمہ صرف اس دنیا ہی کی شہزادی نہ تھی بلکہ اگلی دنیا کی بھی شہزادی ہیں۔ رسول اللہ بنے بتایا ہے کہ ’’فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردارہوں گی۔‘‘

اور جنت میں اللہ انہیں وہ سب کچھ دے دے گا ۔۔۔۔سونا،چاندی،زیور،کپڑے ،عالیشان محل ۔۔۔جوشہزادیوں کو ملتے ہیں۔