May 20th, 2024 (1445ذو القعدة12)

مسئلہ فلسطین پر ایک طائرانہ نظر

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان

فلسطین مغرب میں صحرائے سینا و بحر ابیض متوسط اورمشرق میں نہر اردن کے درمیان میں ایک چھوٹا سا خطہ ہے، جہاں قدیم ترین زمانے سے ’کنعانی‘ یا ’اموری‘ قوم رہتی آئی ہے۔ یہ تاجر اور کسان لوگ تھے۔ مصر سے آنے والے یہودیوں کی انھی سے لڑائی ہوئی تھی ۔ یہودیوں نے ان کو ’فلستینی ‘ کہا اور اس کے معنی ’شرابی،کبابی‘ کے رکھ دیئے۔ یہودیوں کے نزدیک اس علاقے کے قدیم باشندوں کی غلطی صرف یہ تھی کہ انھوں نے یہودیوں کے مصر سے نکلنے کے بعد ان کا استقبال ’’پانی اور روٹی سے نہیں کیا‘‘ (توریت، تثنیہ ۲۳)۔ اس لیے وہ گردن زدنی کے مستحق ہوئے۔

  • تاریخی پس منظر:یہودی تقریباً ۱۲۲۰ قبل مسیح میں حضرت یوشع (Jushua)کی قیادت میں صحرائے سیناء سے نکلنے کے بعد فلسطین میں داخل ہوئے۔ توریت (سفر یشوع) کے مطابق انھوں نے انتہائی درندگی کے ساتھ فلسطینیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

 کنعانی یبوسی قبیلہ (Jebusites) بیت المقدس کے ارد گرد رہتا تھا۔ یہ لوگ ۱۴۰ سال تک یہودیوں کا مقابلہ کرتے رہے اور صرف ۱۰۴۹ قبل مسیح میں حضرت داؤدؑ اس علاقے پر قبضہ کرپائے۔ شاؤل ۱۰۲۰ قبل مسیح میں پہلا حاکم ہوا، جس نے سب یہودیوں کو ایک جھنڈے کے تحت جمع کیا۔ اس کے بعد حضرت داؤد ؑ آئے، جن کا زمانہ ۱۰۰۰ -۹۶۱قبل مسیح کا ہے۔ انھوں نے ۹۹۰ قبل مسیح میں فلسطینی قبائل پر قابو پایا اور دمشق کو خراج دینے پر مجبور کیا۔صرف حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کے ایک بڑےخطے پر حکومت کی۔

حضرت داؤدؑ کے بعد حضرت سلیمانؑ آئے، جن کا زمانہ ۹۶۱– تا ۹۲۲ قبل مسیح کا ہے۔ انھوں نے بیت المقدس میں ایک یہودی معبد بنایا جو ’ہیکل‘ (Temple)کے نام سے جانا جاتا ہے۔  کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک دیوار آج بھی موجود ہے۔ اس دیوار کو مسلمان مسجد اقصیٰ کی ’مغربی دیوار‘ (الحائط الغربی) کہتے ہیں،جب کہ یہودی اس کو’دیوار گریہ‘ (Wailing Wall) کا نام دیتے ہیں۔ اس سلطنت کے تعلقات یمن تک سے تھے۔ حضرت سلیمانؑ کے۹۲۲ قبل مسیح میں وفات پاتے ہی ان کی سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔ جنوب میں ’یہودا‘ اور شمال میں ’اسرائیل‘ نامی دو ملک وجود میں آئے، جو آپس میں دوسو سال تک لڑتے رہے۔

حضرت داؤد اور سلیمان علیہم السلام دونوں نے ۴۰،۴۰ سال حکومت کی، اس کے بعد سب ختم ہوگیا۔ لڑائیوں وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے تو فلسطین پر صرف ۷۰ سال پورے طور پر یہودی حکومت رہی (انگریز مؤرخ جفریز [JMN Jafferies Palestine- The Reality] ۔

مراد یہ ہے کہ بہترین حالات میں بھی یہودیوں نے پورے فلسطین پر کبھی قبضہ نہیں کیا۔ مؤرخ بیلوک کے مطابق اس زمانے میں بھی اس مملکت کی لمبائی ۱۸۰ کلومیٹر اور چوڑائی ۹۰کلومیٹر تھی (یعنی موجودہ غزہ سے ملتی جلتی)۔انھوں نے زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر قبضہ کیا، جب کہ وادی کے علاقے فلسطینیوں کے پاس رہے۔

آشوریوں نے ۷۲۱ قبل مسیح میں پہلی بارـ ’اسرائیل‘ کو ختم کرکے یہودیوں کو مشرق کی طرف کھدیڑ دیا اور دوسرے لوگ ان کی آبادیوں میں بسادیئے۔ یوںان کا تاریخ سے نام ونشان مٹ گیا۔ البتہ دوسری یہودی حکومت’یہودا‘ بچ گئی تھی، جس کا صدر مقام ’اورشلیم‘ تھا۔ ۵۹۷ قبل مسیح میں نبوخدنصر (بخت نصر) نے اس دوسری یہودی حکومت کا بھی خاتمہ کردیا اور اس کے بادشاہ یواقیم (Joacqim) سمیت ۱۰ہزار یہودیوں کو یرغمال بناکر بابل لے گیا۔ ان میںنبی حضرت حزقیال شامل تھے۔ جلد ہی باقی ماندہ یہودیوں نے بغاوت کی،جس کی وجہ سے نبوخدنصر ۵۸۷ق م میںدوبارہ فلسطین آیا، اورشلیم کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ مزید بہت سے یہودیوں کو غلام بناکر بابل لے گیا اورباقی ماندہ یہودیوں کو اس علاقےسے نکال دیا۔ یوںسلطنت ’ــاسرائیل‘ کے ختم ہونے کے ۱۳۰سال بعد سلطنت ’یہودا‘ کا بھی مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔

۵۳۹ قبل مسیح میں یہودیوں کی بابل کی غلامی ختم ہونے پر واپسی ہوئی ۔ ایران کے بادشاہ کور ش دوم نے فلسطین کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں دو بارہ بسنے کی اجازت دی۔ یوں ۵۱۵ قبل مسیح میںدوبارہ ہیکل سلیمانی بنا۔

۶۳ ق م - ۷۰ء میں فلسطین پر رومن قبضہ ہوا۔ قبضہ پورا ہونے پر یہودیوں کی بغاوت کی وجہ سے ۷۰ء میں رومن جنرل ٹائٹس (Titus) فلسطین آیا اور پوری طرح اورشلیم اور ہیکل کو تباہ کر کے اس کی جگہ ایک رومن شہر بنام ایلیا کاپیتولینابنا کرواپس گیا اور یہودیوں کو وہاں سے پوری طرح سے جلاوطن کر دیا۔

۲۷۳ء میں ’انباط‘ (عربوں) نے اس علاقےپرقبضہ کرلیا۔

۶۳۹ء ( ۱۵ھ) میں بیت المقدس حضرت عمرؓ بن الخطاب کے ہاتھوںفتح ہوا، جب وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ مسجداقصیٰ کی جگہ اس وقت کوڑا پڑا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس جگہ کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے صاف کیا اور وہاں نماز پڑھی۔ بعد میں اس جگہ پرایک مسجد بنی۔حضرت عمرؓ کے ہاتھوں ’العہد العمری‘ نامی وثیقہ لکھا گیا، جس میں یہودیوںکا بیت المقدس میں داخل ہونا منع کیا گیا اور یہ وہاں کے عیسائیوں کی درخواست پر ہوا۔

۱۰۹۹ء سے ۱۳۶۹ء تک صلیبی جنگیں جاری رہیں، جو فلسطین پر یورپی عیسائی قوموں کے قبضے کی کوشش تھی، کیونکہ ان کے خیال میں ’’حضرت مسیحـؑ کی جائے پیدائش کو غیر عیسائیوں کے قبضے میں نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ کل ۹ صلیبی جنگیں ہوئیں۔ آخرکار اکتوبر ۱۱۸۷ءمیں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے ۹۹ سال قبضے کے بعدواپس لیا اور یہودیوں کو دوبارہ بیت المقدس آنے کی اجازت دی۔ انھوں نے بیت المقدس کی حفاظت کے لیے مراکش سے جفاکش مسلمانوں کو بلاکر مسجد اقصیٰ کے پاس بسایا۔ ان کا محلہ ’حی المغاربۃ‘ ۱۹۶۷ء تک باقی تھا۔ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضے کے بعد چھ گھنٹے کے نوٹس پر ان کو باہر کر دیا اور ان کے گھرمسمار کرکے ’دیوار گریہ‘ کے سامنے ایک بڑا میدان بنا دیا، جہاں یہودی اب عبادت کرتے ہیں۔

یورپ میں مستقل بُرے سلوک اور ابھرتی ہوئی نئی قومیتوں کی وجہ سے وہاں کے یہودیوں میں ’یہودی وطن‘ کی بات شروع ہوئی، حالانکہ نہ ان کا اپنا کوئی ملک تھا اور نہ کسی علاقے ہی میں ان کی اکثریت تھی ۔ آسٹرین صحافی ہرتزل (Herzl) نے صہیونی تحریک شروع کی۔ ۱۸۶۰ء میں دوبارہ یہودیوں نے فلسطین میں بسنا شروع کیا۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی ۵ہزار تھی۔ فرانس کے بارون ہرش(Baron Hirsh) نے اس کام کے لیے پیسے دیئے۔ بعد میں برطانیہ کے لارڈ روچائلڈ (Lord Rothchild)نے بھی اس مقصد کے لیے کافی پیسے دیئے تاکہ یہودی فلسطین میں زمینیں خرید کر وہاں بسنا شروع کریں۔

  • اعلان بالفور :پہلی جنگ عظیم (۱۸-۱۹۱۴ء)کے دوران برطانیہ نے ’اعلان بالفور‘ جاری کرکے فلسطین میں ’یہودی وطن‘ بنانے کا وعدہ کیا، جب کہ اسی وقت انگریزوں نے سائکس پیکو ( Sykes Picot) معاہدے کے ذریعے فرانس کے ساتھ اس علاقے کو آپس میں بانٹنے اور ’شریف مکہ‘ [حسین بن علی ہاشمی، م:جون ۱۹۳۱ء] سے معاہدہ کرکے اس پورے علاقے میں ’عرب حکومت‘ قائم کرنے کا جھوٹاوعدہ کیا۔ جس وقت یہ وعدے کیے گئے، تب برطانیہ یا فرانس کا اس پورے علاقے کے کسی حصے پر قبضہ نہیں تھا۔

 اکتوبر۱۹۱۸ء میں فلسطین پر برطانوی قبضہ ہوگیا، جس کے بعد ’اعلان بالفور‘ کے تحت فلسطین کو یہودی ہجرت کے لیے کھول دیا گیا۔ ۶۰ سال سے مسلسل ہجرت کے باوجود اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۶ہزار تھی۔

 برطانیہ نےفلسطین میں یہودیوں کوہر سہولت کے ساتھ نیم فوجی دہشت گرد مسلح تنظیم ہاگاناہ (Haganah) بنانے کی اجازت دی، جس کی وجہ سے عملًافلسطین میں ہر طرح سے مسلح یہودی فوج تیار ہوئی، جب کہ عربوں کے اسلحے چھینےگئے اوریہودیوں کے برعکس عربوں کے اسلحہ رکھنے پر جیل اور جلاوطنی کی سزا مقرر ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد یہودی دہشت گرد تنظیموں کا قیا م عمل میں آیا، جن میں ارگون ، شترن،لیہی اور اتزیل شامل ہیں۔ جنھوں نے ۱۹۴۸ء میں عربوں کو اپنے وطن سے بندوق کے ذریعے کھدیڑنے کا کام کیا۔ ان کو بعد میں اسرائیلی فوج میں ضم کر دیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔برطانیہ کو فلسطین سے بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے اب یہودی دہشت گردوں نے انگریز فوج اور انتظامیہ پر حملہ کرنا شروع کردیا۔ فلسطین میں یہودی دہشت گردی کا سامنا کرنا کمزور برطانیہ کے بس میںنہیں تھا، اس لیے اس نے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ عرب اکثریت کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کا۴۴ فی صد عربوں کو اور یہودی اقلیت کو ۵۶ فی صد دے دیا۔ عربوں نے اس ظالمانہ فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا، جب کہ یہودیوں نے مارچ ۱۹۴۸ء سے ہی ’آپریشن دالیت‘ کے تحت فلسطین میں اسرائیل بنانے کے لیے عربوں پر حملے اور قتل عام شروع کر دیا، تاکہ وہ یہودی سلطنت سے بھاگ جائیں۔ اس کے رد عمل کے طور پر عرب ممالک (مصر، اردن اور عراق وغیرہ) نے فلسطین میں اپنی فوجیں بھیجیں، جن کو واضح حکم تھا کہ تقسیم پلان کے تحت یہودیوں کو دیئے گئے حصے پر قبضہ نہ کریں۔ یوں عرب فوجیں آگے نہیں بڑھیں، جب کہ یہودی دہشت گرد تنظیمیں حملے کرکے عربوں کوقتل اور مختلف علاقوں سے نکالتی رہیں۔ یہاں تک کہ فلسطین کے ۷۰ فی صد عرب اپنے علاقوں سے بھاگ کر قریبی علاقوں اور ملکوں میںپناہ گزیں ہوگئے اور پھر اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادوں کے باوجود آج تک اپنے گھروں کو واپس نہ جاسکے۔

  • اسرائیل کا قیام : ۱۵مئی ۱۹۴۸ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا اورفلسطین میںخانہ جنگی چھڑ گئی۔امریکا اور اشتراکی روس نے چند گھنٹوں کے اندر اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ ۱۹۴۹ء میں جنگ بندی تک فلسطین میں ۷۸فی صد زمینوں پر یہودی قبضہ ہو گیا یعنی فلسطینی عربوں کے لیے ان کے ملک کا صرف ۲۲ فی صد حصہ بچا۔ اس باقی ماندہ فلسطین کے ایک حصے (مغربی کنارہ بشمول بیت المقدس) پر اردن نے قبضہ کر لیا اور دوسرے حصے (غزہ) پر مصر نے قبضہ کر لیا۔

۵جون ۱۹۶۷ءکو اسرائیل نےحملہ کرکے باقی ماندہ ۲۲ فی صد فلسطین کے ساتھ مصر کے صحراء سیناء اورشام کی جولان پہاڑیوں(Golan Heights) پر بھی قبضہ کرلیا۔

  • کیمپ ڈیوڈ معاہدہ: اکتوبر ۱۹۷۳ء میں مصر اور شام نےا پنے علاقے آزاد کرانے کے لیے جنگ کی ۔ مصر نے صحرائے سیناء کا ایک تہائی علاقہ واپس لیا، جب کہ شام ناکام رہا۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ءمیں مصری صدر انورسادات نے اسرائیل کے ساتھ ’کیمپ ڈیوڈ معاہدہ‘ کرکے  صلح کرلی، جس سے اسرائیل پر دباؤ بہت کم ہو گیا اور دوسرے عرب و غیرعرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے شروع کر دیئے۔ اس سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیںکرتے تھے جس میں ہندستان بھی شامل تھا۔

باقی ماندہ فلسطین پر مسلسل اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کا پہلا ’انتفاضہ‘ دسمبر ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۱ء کی میڈرڈ کانفرنس تک چلا ۔

  • اوسلو معاہدہ: تھک ہار کر یاسر عرفات (م: ۲۰۰۴ء)کی سربراہی میں فلسطینی قیادت نے ۱۳ستمبر۱۹۹۳ء میںاسرائیل کے ساتھ ’اوسلو معاہدہ‘ کیا، جس کی رُو سے پانچ سال میں خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہونا قرار پایا، لیکن فلسطین کے بنیادی مسئلوں (بیت المقدس /پناہ گزینوں/ سرحد/ داخلی وسائل) کو بعد کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ پانچ سال کے اندر فلسطینی ریاست وجود میں آنی تھی، لیکن ۳۰سال کے بعد بھی یہ ریاست آج تک وجود میں نہیں آئی ہے۔ ’فلسطینی اتھارٹی‘ (فلسطینی مقتدرہ) کے نام پر جو علاقہ موجود ہے، اس کی حیثیت صرف ایک میونسپلٹی کی ہے اور وہ اسرائیل کے مخبر کے طور پر کام کرتی ہے،یعنی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیل کو باخبر کرتی ہے اور اسی وجہ سے وہ فلسطینی عوام میں مقبول نہیں ہے۔

’اوسلو معاہدہ‘ کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کو یہودی شدت پسندوں نے ۴ نومبر ۱۹۹۵ء کو قتل کر دیا۔ اسرائیل میں فلسطینیوں سے کسی بھی سمجھوتے کی مخالف لیکوڈ پارٹی نے کلین بریک (Clean Break ) نامی پلان امریکی نیوکون کی مدد سے بنوایا، تاکہ ’اوسلو معاہدے‘ کو عملاً کالعدم کیا جاسکے۔ ۱۹۹۷ء میں لیکوڈ پارٹی کے برسراقتدار آتے ہی اس پلان پر عمل شروع ہوگیا اور دھیرے دھیرے فلسطینی مقتدرہ کو بے اختیار بنانےکے عمل کا آغازہوگیا اور فلسطینی حکومت کو دیئے جانے والےعلاقوں میں یہودی نوآباد بستیاں بنانےکا کام تیزی سے شروع ہوگیا۔ سارا الزام عربوں پر رکھا گیا، جب کہ معاہدے کو اسرائیل نے ناکام بنایا۔ اس کےنتیجے میں ۲۰۰۰ء میں ’دوسراانتفاضہ‘ شروع ہوا، جو پانچ سال چلا۔

مئی۲۰۱۲ء میں یوسی بیلین(Yossi Beilin) نے، جو ’اوسلو معاہدہ‘ کا اسرائیل کی جانب سے موجد تھا، فلسطین اتھارٹی کو مشورہ دیا کہ اتھارٹی کے وجود کو ختم کر دو تاکہ دنیا کے سامنے اسرائیل بے نقاب ہوجائے۔ یہودی نوآبادیا ں فلسطینی عربوں کی ان زمینوںپر مستقل قائم ہو رہی ہیں، جنھیں اسرائیل بھی مانتا ہے کہ انھیں فلسطینیوں کو واپس کرنا ہے۔

  • حماس کی مزاحمت: اگست-ستمبر ۲۰۰۵ء میں اسرائیل غزہ سے حماس کی مزاحمت کی وجہ سے نکل گیا، لیکن علاقے پر بری، بحری اور ہوائی کنٹرول قائم رکھا ۔

جنوری ۲۰۰۶ء میں حماس کی منتخب حکومت کو اسرائیل ، امریکا اور یورپ وغیرہ نے چندمہینوں کے اندر مل کر توڑدیا اور ۲۰۰۷ء سے اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ شروع کیا، جو اَب تک جاری ہے۔

غزہ پر اسرئیلی حملے ۲۰۰۶ء ، ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء ، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۲ء میں ہوئے۔ ۲۰۱۴ء میں رمضان کے دوران اسرائیل نے حملہ کر کے غزہ کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن مزاحمت کو شکست نہ دے سکا۔ حماس نے ۲۰۱۴ء کی جنگ کا ۵۱ دن تک مقابلہ کیا اور دنیا کی پانچویں سب سے طاقت ور فوج کو جنگ بندی پر مجبور کردیا اور بڑی حدتک اپنے مطالبات منوالیے۔ اسرائیل اپنے مطالبات، یعنی راکٹ کے حملے بند کرانے ، غزہ کو اسلحے سے خالی کرانے اورسرنگوں کا خاتمہ کرانے میں ناکام رہا۔

۲۰۱۸ء میں غزہ کے لوگوں نےمحاصرے کے خلاف سرحد پر احتجاج شروع کیا، جس پر اسرائیل نے فائرنگ کر کےسات فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔

مارچ۲۰۱۹ء میں اسرائیل نے غزہ پر پھر حملہ کیا۔اس کے بعد مئی۲۰۱۹ء، نومبر۲۰۱۹ء، ۲۰۲۱ء، ۲۰۲۲ء اور مئی۲۰۲۳ء میں بھی غزہ پر اسرائیلی حملے ہوئے۔ مئی۲۰۲۱ء میں اسرائیلی حملہ پہلے کی طرح نہ صرف ناکام رہا بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حماس اور الجہاد الاسلامی، اسرائیل کے مقابلے میں فوجی برابری (deterrence) کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ پہلی دفعہ ۲۰۲۱ء میں اسرائیل کا بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا۔ اسرائیل کے اندر فلسطینیوں نے انتقامی کارروائی کی اور اسرائیل کو یک طرفہ جنگ بندی پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ کے دوران ۲۴۲ فلسطینی شہید ہوئے، غزہ کے ۸۰ہزار لوگ بے گھر ہوئے اور ۱۷ہزار رہائشی اور تجارتی مراکز تباہ ہوئے۔

  • غزہ کی حالیہ جنگ: ۷؍اکتوبر۲۰۲۳ءکو حماس نےاسرائیل پر اچانک بڑا حملہ کیا، جو اسرائیل کے لیے بالکل غیر متوقع تھا۔یہ حملہ ۱۹۶۷ء سے اسرائیلی قبضے اور ۲۰۰۶ء سے جاری اسرائیلی محاصرے کے خلاف تھا ۔ یہ حملہ پوری طرح سے بین الاقوامی قانون کےتحت مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کے حقِ مزاحمت کا استعمال تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کو پوری طرح تباہ کرنا شروع کردیا۔ جنگ اب ساتویں مہینے میں داخل ہوچکی ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک مختصر اورنہتی آبادی دنیاکی پانچویں بڑی فوجی طاقت کے خلاف اتنے لمبے عرصے تک اتنی بہادری سے لڑتی رہے۔اس سے پہلے عرب ملکوں کی فوجوں کی اسرائیل سے لڑائی صرف چند دن چلتی تھی۔ا س جنگ میں اسرائیل نے بےدریغ بمباری کی۔ اب تک غزہ کے تقریباً ۷۰ فی صد گھر، تمام بڑی عمارتیں، اور رہائشی فلیٹس اس اندھا دھند بمباری سے منہدم ہوچکے ہیں ۔پانی، بجلی، سیوریج سسٹم اور ٹیلی فون و انٹرنیٹ کا نظام پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں۔یہ بمباری دنیا بھر میں پچھلے ایک سو سال میں شدید ترین تھی ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی کسی علاقے پر اتنی شدید بمباری نہیں ہوئی۔الجزیرہ کے مطابق جنگ کے ۲۰۱ویں دن یعنی ۲۵ ؍اپریل۲۰۲۴ء تک ۳۴ہزار ۳ سو۳ فلسطینی شہید ہوئے (جن میں ۱۴ہزار ۵ سو بچے اور ۱۰ہزار عورتیں شامل ہیں) اور ۷۷ہزار ۲سو۹۳ زخمی ہوئے (جن میں۱۲ہزار بچے اور ۶ ہزار ۳سو۲۷ عورتیں شامل ہیں)۔ تقریباً  ۱۹ہزار بچے یتیم ہوئے ہیں اور ۸ہزار سے زیادہ لوگوں کی لاشیں اب بھی ان کے تباہ شدہ گھروں کے ملبوں میں دبی ہوئی ہیں۔ اس لیے ان کے نام شہیدوں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ مسلسل اسرائیلی فائرنگ کی وجہ سے جاں بحق ہونے والی میتیں ملبوں میں تلاش کرنا فی الحال ممکن نہیں ہے۔

اسرائیل اور امریکا کا اندازہ اور منصوبہ یہ تھا کہ شدید بمباری اور کھانے پینے کی اشیاء کو بالکل روکنے سے غزہ کےلوگ مصر کے صحرائے سیناء کی طرف بھاگ جائیں گےاور یوں غزہ کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا۔ لیکن غزہ کے لوگوں نے جان کی قربانی دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیا۔

غزہ میں مکمل اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں اور دواؤں کی شدید قلت ہے، جس کی وجہ سےوہاں درجنوں لوگ خاص طور سے بچے بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ تمام ہسپتال تقریباً تباہ اور اکثر بند ہیں۔ اسرائیل نےغزہ کے تقریباً ۱۳؍لاکھ لوگوں کو اپنے اپنےعلاقوں سے نکل کر صحرائے سیناء سے ملے ہوئے غزہ کے جنوب مغربی شہر رفح میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے، لیکن وہ وہاں بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں ۔جہاں موجودہ جنگ سے پہلے غزہ میں روزانہ ۵۰۰ٹرک کھانے اور ادویات وغیرہ کے داخل ہوتے تھے، اب وہاں صرف ۸۰ ٹرک روزانہ داخل ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں۱۵مارچ تک ۱۴۱ صحافی قتل ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر فلسطینی ہیں۔

  • عالمی ردعمل: جنوبی افریقہ نے ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ وہ غزہ میںنسل کشی (Genocide)کا ارتکاب کررہا ہے۔ بین الاقوامی عدالت کا آخری فیصلہ ابھی نہیں آیا، لیکن اس نے اسرائیل کی سرزنش کی ہے اور اس کو نسل کشی روکنے کے لیے کہا ہے، لیکن اس کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے، کیونکہ اس کو امریکا اور مغربی ممالک خصوصاً جرمنی اور برطانیہ کی پوری تائید حاصل ہے۔ اسی جنگ کے دوران اسرائیل کو بچانے کے لیے امریکا چار بار اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد کے خلاف ویٹو کرچکا ہے، نیز جنگ کے دوران اسرائیل کی بھر پور جنگی اور مالی مدد کررہا ہے۔ جنگ کے شروع ہوتے ہی امریکا نے اپنے دو بحری بیڑے علاقے میں بھیج دیئے تاکہ کوئی ملک اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہوسکے۔ جنگ کے دوران امریکا نے ہوائی اور بحری جہازوں کے ذریعے مسلسل اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا۔ امریکا ۲۰۲۳ء تک اسرائیل کو ۲۶۰بلین ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔

نسل کشی کے مقدمے کے علاوہ ،دنیا کے ۵۲ ممالک نےبین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف ایک اور مقدمہ دائر کیا ہے کہ غزہ ، مغربی پٹی اور بیت المقدس پر ۱۹۶۷ء سے جاری اسرائیلی قبضہ ہٹایا جائے۔ ابھی اس مقدمے کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ افسوس ہے کہ مقدمہ زیادہ تر غیرعرب اور غیر مسلم ملکوں ہی نے دائر کیا ہے۔ یہ توفیق کسی مسلم ملک کو حاصل نہیں ہوسکی۔ غزہ کی جارحیت کی وجہ سےمتعدد غیر مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں، لیکن کسی عرب یا مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ کچھ درپردہ اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔

اس جنگ کے دوران حزب اللہ اور لبنان کی الجماعۃ الاسلامیۃ نے شمالی اسرائیل پر حملے کیے ہیں ۔ عراق کی کچھ ملیشیا نے بھی اسرائیلی اور امریکی ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔ یمن کی انصاراللہ حکومت نےباب المندب اور بحر احمر سے اسرائیلی بحری جہازوں یا اسرائیل سامان لے جانے والے بحری جہازوں پر پابندی لگا دی ہے اور اس طرح کے کچھ جہازوں پر حملہ بھی کیا ہے، جب کہ یمن پر اسی وجہ سے امریکا اور برطانیہ مستقل حملے کر رہے ہیں۔

سارے نقصانات کے با وجود موجودہ جنگ نے اسرائیل کے خلاف پانسہ پلٹ دیا ہے۔ اسرائیل کی فوجی برتری کا دعویٰ اور اس کی بنیاد پر عربوں کا بلیک میل اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ سفارتی طور پر اسرائیل کو ہر جگہ منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات کی گاڑی رک چکی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اب دو بارہ عرب اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کا مرکزی مسئلہ بن چکا ہے۔ حماس اور فلسطینی مزاحمت کو اب کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ غزہ اور حماس نے اسلامی تاریخ میں ایک نئے سنہری باب کا اضافہ کیا ہے، جو عینِ جالوت اور حطین کی طرح صدیوں یاد رکھا جائے گا۔

قرآن پاک میں سور ۂ بنی اسرائیل کی آیات۴ تا ۸ میں بتایا گیاہے کہ یہودی فلسطین میں تین بار سرکشی کریں گے اور تینوں بار اللہ پاک ان کو سخت سزا دیں گے۔ اب تک دوبار ہو چکا ہے (۵۸۷قبل مسیح اور ۷۰عیسوی)، ایک سرکشی ابھی باقی ہے۔ اس سرکشی پر بھی ان کی پہلے کی طرح سرکوبی کی جائے گی۔ شاید اس کا وقت آگیا ہے۔ آج پہلی بار دنیا اور بالخصوص ایشیا ، افریقہ اور جنوبی امریکا کے اکثر ممالک اسرائیل کے خلاف ہیں۔مغربی ممالک کے بہت سے باشندے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں اور اپنی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ اپنی تاریخ میں آج پہلی دفعہ اسرائیل تنہا کھڑاہے۔اس کے جھوٹوں کا گھڑا پھوٹ چکا ہے۔

                                                      بشکریہ عالمی ترجمان القرآن