April 19th, 2024 (1445شوال11)

حسین آج بھی تنہا دکھائی دیتا ہے

افشاں نوید

آزادی ،حریت ،خود داری، عزت نفس، خود مختاری، قومی حمیت —بھلا کیسے دبایا اور کچلا جا سکتا ہے ان جذبوں کو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟امام حسین کی شکل میں حقیقتاً امت کی خود داری، حریت اور عزت نفس کی مرتکز ہوگئی تھی سانحہ کربلا اور  خون شہیدان آج بھر پور پیغام دے رہا ہے کہ فرد واحد کے ہاتھوں میں اقتدار ہونا (یا  اقتدارکسی کی خاندانی میراث ہونا —– )دنیائے ریاست کا بد ترین  جرم ہے امام حسین نے اپنے خون کی موجوں سے خود داری کا جو چمنستان پیدا کیا اور رہتی دنیا تک کے لئے یہ درس چھوڑا کہ جاہ و اقتدار اور تلوار ریاست کی بقا کے لئے ہے اور اگز یہ اپنی ذاتی جاہ و اقتدار کی حفاظت کا ذریعہ بنائی جائے تو ایسی فرعونیت کو بر سر عام للکارا جائے گا —اور سر کٹ تو سکتا ہے مگر  تلوار فرعون  کے سامنے خم نہیں ہو سکتا اقبال نے کہا ہے

خون او تفسیر ایں اسرار کرد

ملت   خوابیدہ   را بیدار کرد

ترجمہ:::(امام حسین کی شہادت نے ان اسرار کی تشریح کرتے ہوئے قوم کو بیداری کا پیغام دیا )

وقت کے فرعون تو آج بھی انا ربکم الاعلٰی کا نعرہ بلند کئے ہوئے ہیں —-لیکن نہ وہ مردان حق ہیں نہ لا الہٰ کی شمشیر جوہر دار جو باطل کا سر کچل کر رکھ دے

حق و باطل کا وہ معرکہ آج بھی بپا ہے —میدان کربلا آج بھی گرم ہے —-فلسطینی نہتے ہونے کے باوجود سات دہائیوں سے لڑ رہے ہیں ٹینکوں کا مقابلہ ان کے نوجوان پتھروں سے کر رہے ہیں —طاغوت کے سمندر میں پتھر پھینک کر اپنی زندگی کا ثبوت دے رہے ہیں دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے کشمیری ہیں جنہیں بھارت نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے ہر قسم کے ظلم و ستم کے با وجود مسلح سات لاکھ فوج ، کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کو دبا نہیں سکی ہے۔۔۔۔۔دنیا کے نقشے پرکشمیری ہوں یا فلسطینی ۔۔۔۔وقت کے فرعون کو للکار رہے ہیں ۔۔۔یزید سے نبرد آزما ہیں —–اور ہم ایٹمی قوت، بہترین فوج جدید ترین ہتھیار لیکن’ ایسی مفتوح قوم ‘جسے ہر دن امریکی اور نیٹو افواج نوجوانوں،  بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی لاشوں کے تحفے دے رہے ہیں —ہم لہو بھی بہاتے ہیں اور آنسو بھی —لیکن اف نہیں کر سکتے — شاید اسلئے کہ اب اس قافلے میں کوئی حسین نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اسلئے مزاحمت بھی نہیں ہے —کہ حسین مزاحمت کی علامت تھے۔۔۔۔۔۔ کشمیر اور  فلسطین دنیا کے نقشے پر اپنی مزاحمت کی وجہ سے زندہ ہیں لیکن ہم ——–نیٹو کے ہیلی کاپٹر مہمند ایجنسی پر دو گھنٹے گولے برساتے رہے اور ہمارے الضرار اور الخالد ٹینک اور غوری میزائل اور ایٹم بم  انکی منتیں کرتے رہے۔۔۔۔ ہاتھ جوڑتے رہے ۔۔۔۔ انہیں منع کرتے رہے —-شکر ہے کچھ تو کرتے رہے ورنہ 02 مئ کو تو وہ ایبٹ آباد آئے اور آپریشن کر کے چلے بھی گئے اور ہم سوتے ہی رہ گئے۔۔۔۔اور ہمارے ریڈار بھی گہری نیند سے بیدار نہ ہو سکے ۔۔۔۔یہ سرحدی حدود کی خلاف ورزی ہے کیا؟؟؟؟ نہیں یہ صرف 24 فوجی جوانوں کی شہادت کا المیہ نہیں ۔۔۔۔یہ ہماری سالمیت، بقا، استحکام اور خود مختاری پر حملہ ہے۔۔۔۔اگر اسطرح کا حملہ پاکستانی فورسز کی جانب سے افغانستان میں کیا جاتا اور نیٹو کے فوجی مارے جاتے تو معاملات اسوقت اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں زیر بحث ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔جانے کون کون سی پابندیاں لگ چکی ہوتیں ، کتنی دھمکیاں مل چکی ہوتیں—انکے نزدیک تو اپنی جان اور خون کی اتنی قیمت ہے کہ ایک قاتل ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کے لئے انہوں نے  تمام تر ریاستی دبا ؤ استعمال کیا —اور ہم دیدہ نمناک سے اسکی ‘باوقار ‘رہائی کے منظر دیکھتے رہ گئے کہ

محکوم کا سرمایہ فقط دیدہ نمناک

اب تک ڈرون حملوں میں اور نیٹو حملوں میں تیس ہزار سے زائد پاکستانی اور ساڑھے تین ہزار فوجی شہید ہو چکے ہیں —ہم چپ چاپ مر رہے ہیں —اور ایٹمی قوت کا احساس تفاخر پانی پانی ہو چکا ہے —عرق ندامت سے نہ شمشیریں کام آرہی ہیں‌نہ تدبیریں —-ذوق یقین تو پہلے ہی گروی رکھا جا چکا ہے —اور خوئے غلامی کو پختہ کرنے میں حکمران ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ  حکمرانوں کی ساحری نفسیات  غلامی کوخوب سمجھتی ہے —نیٹو کے تازہ حملے میں قوم جو ذرا بیدار ہوئی ہے تو پھر امریکہ ایک ‘مالیاتی پیکج ‘ پر غور کر رہا ہےاس نقصان کے ازالے کے لئے

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلا دیتی ہے اسکو حکمراں کی ساحری

یہ خودی اور خودداری ہی وہ کانٹا ہے جو یزید کو بھی کھٹکتا تھا اور آج کے فرعونوں اور یزیدوں کو بھی —-یہ ملی تشخص جو آئے دن امریکہ کے ہاتھوں پامال ہو رہا ہے اگر اس  تشخص پر اصرار نہ ہوتا تو پاکستان کیونکر وجود میں آسکتا تھا —–؟؟اب تمام تر دباؤ اسی  تشخص کی دست  برداری پر ہے —–یہ مشترکہ تہذیب کی باتیں ،امن کی آشا، ثقافتی طائفے، انڈیا کو انتہائی پسندیدہ ملک (MFN) قرار دینا ، دست قاتل کو خنجر فراہم کرنے کے مترادف ہے جو ہماری شہ رگ (کشمیر) کو کاٹنے کے درپے ہے —-یہ اکھنڈ بھارت کے خواب کی تعبیر ہے —یہ صرف کشمیریوں سے بے وفائی ، پانیوں سے محرومی نہیں بلکہ ہماری نظریاتی اساس پر سوالیہ نشان ہے —اسکو بھارت کی بالا دستی کو تسلیم کرنے کے سوا اور  کیا نام دیا جا سکتا ہے؟؟؟؟؟یعنی غلاموں کوغلام  بنانے کے منصوبے ۔۔۔۔۔۔۔

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھکو

کہ تجھ سے ہو نہ سکے گی فقر کی نگہبانی

ہم کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں—- اپنے ہزاروں معصوم شہیدوں کے لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کریں

امام حسین  اور شہدائے کربلا نے جو کارنامہ سر انجام دیا اسکی یادیں بھی ہمارے سرمایہ ایمان اور یقین کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے —-جن میں ایک ہی پیغام ہے کہ غلامی کی زنجیروں سے عزت کی  موت بہتر ہے —ملوکیت کی ہزار سالہ تاریخ پر آج بھی میدان کربلا کے وہ چند لمحے بھاری ہیں —جب خود داری اور جذبہ حریت نے آمرانہ دور کے جاہ وجلال کو للکارا —-امت کے اس دور افتادگی میں آج بھی اسی ابر کرم کی ضرورت ہے —ایک وسیع خلیج ہے جو صدیوں کی  قیصر نوازی کے باعث ہمارے اور پیغام حسین کے درمیان حائل ہو چکی ہے

آج بھی سر سنال اسی چراغ کو روشن کرنے کی ضرورت ہے جس نے چودہ صدیوں سے ایک ہی پیغام زندہ کر رکھا ہے کہ اپنے دور کی استبدادی  طاقتوں کے طلسم کے سب تارو پور بکھیر دو

تار ما از زخمہءاش لرزاں ہنوز

تازہ  از  تکبیر  او  ایمان   ہنوز

(ہمارے شعور ملی کے تار مضراب حسینی کی ضربوں سے ابھی تک لرزاں ہیں‌اور ہمارے ایمان کی تازگی انہی تکبیروں کی گونج میں ہے )