April 18th, 2024 (1445شوال9)

ویمن اینڈ فیملی کمیشن (ایک تعارف)

افشاں نوید

گزشتہ چار دہائیوں کے دوران خواتین کے حوالے سے جن مسائل پر بحث کی جارہی ہے ان میں خواتین کے حقوق میں مساوات کا نہ پایا جانا سر فہرست ہے۔ مستشرقین اگر اس پہلو سے ابہام کا شکار ہوں تو بات بنتی ہے مگر افسوس تو یہ کہ خود مسلم معاشروں میں جدیدیت‘ لبرل ازم‘ حقوق انسانی اور مساوات‘ عورتوں پر تشدد وغیرہ جیسے عنوانات نے سر اٹھایا اور دنیا کو یہ تاثر دینا چاہا کہ اسلام کی روایتی قدامت پسند تعلیمات کہ جگہ ایک نظر ثانی شدہ اسلام (جو جدید دور کی مغربی تہذیب کی برابری کرسکتا ہو) ایجاد کیا جائے۔ گو خواتین کے حوالے سے معاشرتی مسائل پر اعلیٰ علمی تحقیقات کی گئیں لیکن خواتین کے حقوق کا سوال بدستور مغرب زدہ ذہنوں کی پریشانی کا سبب ہے۔

قدیم جاہلیت نے مرد کی برتری پر سارا زور لگایا اور جدید جاہلیت نے رد عمل کا شکار ہوکر عورت کو برابری کی دوڑ میں لگادیا‘ اب اسے اپنے برابر کھڑا مرد بھی برداشت نہیں اور وہ آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہے اور بتدریج دونوں صنفوں کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے اور معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہے ہیں۔ عورت کے حقوق جب تہذیب جدید نے متعین کیے تو اس کی تہہ میں مذہب سے نفرت اور صنعتی انقلاب کی طرف پیش قدمی تھی۔ جب کہ اس دوڑ میں مسلم معاشرے بھی اپنے اصل منصب اور ماخذ قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی معاشی اور سیاسی محکمومی کے سبب عورت اور خاندان کے استحکام سے بے پروا بہت دور نکل گئے۔ عورت کی حیثیت اور حقوق کو اس طرح زیر بحث لایا گیا کہ بالآخر عورت اور اسلام کو آپس میں ٹکرادیا۔

جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے تحت قائم ویمن اینڈ فیملی کمیشن اسلام میں دیے گئے خواتین کے حقوق کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے فرائض کی احسن ادائیگی اور استحصال کے خاتمے کے لیے مناسب قانون سازی اور اس پر موثر عمل در آمد اور معاشرتی اصلاحی تحریک کی طرف پیش قدمی کے لیے تحریک فراہم کرتا ہے۔ یہ کمیشن خواتین کے امور میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور پاکستانی معاشرے کو غلط سمت میں لے جانے کی کوشش کرنے والوں سے علمی اور فکری سطح پر ڈائیلاگ اور خواتین میں اسلامی حقوق کی آگہی پیدا کرنے کی کوششوں کا پابند ہے۔ ویمن اینڈ فیملی کمیشن عورت کے معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی حقوق کا درج ذیل جامع چارٹر پیش کرتا ہے جس کو اپناکر پاکستان کو پوری دنیا کے لیے ایک روشن مثال بنایا جاسکتا ہے۔

معاشی حقوق : عورت کے کفیل کو معاشی ذمے داریاں اٹھانے کا پابند بنایا جائے۔ نیز حکومتی بیت المال سے کفالت کا نظام رائج کیا جائے۔ مہر کی رقم مرد اپنی معاشی حیثیت کے مطابق مقرر کریں۔ اس کی ادائیگی یقینی بنانے‘ نیز وراثت سے عورت کوشرعی حقوق دلوانے یا زوجین میں علیحدگی کی صورت میں رضاعت اور عدت کے عورت کو اخراجات دلوائے جائیں۔

گھریلوو صنعتوں‘ نیز گھروں کے قریب روزگار فراہم کرتے ہوئے مخلوط ماحول کی قباحتوں سے بچایا جائے۔

معاشرتی حقوق: کمیشن یہ تجویز کرتا ہے کہ عورتوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ نیز بجٹ کا مخصوص حصہ لڑکیوں اور عورتوں کے لیے مختص کیا جائے۔ پرائمری تعلیم مفت ہو‘ نیز صوبوں میں خواتین یونیورسٹیاں ہوں۔ خواتین کے لیے ہیلتھ سینٹرز ہوں‘ عورتوں کا استحصال کرنے والے ررسم و رواج کا خاتمہ ہو۔

سیاسی حقوق: خواتین کے انتخابی عمل میں آزادانہ شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ نیز سیاسی نمائندگی کے عمل کو بہتر بنایا جائے۔

قانونی حقوق: کمیشن عورت کی تکریم اور تقدس کے تحفظ کے لیے اس پر تشدد کے خاتمے کے لیے کڑی اور فوری سزاؤں کے حق میں آواز بلند کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عورت کے استحصال‘ نیز محض تفریح اور مصنوعات کے فروخت کے لیے عورت کو آلہ کار کی حیثیت سے پیش کرنے کی سخت مخالفت کرتا ہے۔

اس سلسلے میں پاکستان بھر میں خواتین کو آگہی دینے کے لیے سیمینارز، مذاکروں اور مختلف فورمز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ عورت اور مساوات کے نام پر عالمی ایجنڈے کیا ہیں۔ پاکستان میں اس ضمن میں کیا قانون سازی ہورہی ہے نیز سماج پر اس کے اثرات منفی یا مثبت کن صورتوں میں مرتب ہورہے ہیں۔ اس کا جائزہ لے کر منفی اثرات کی روک تھام کے لیے مختلف جہتوں سے اسلامی حقوق و فرائض سے آگہی کو عنوان بنایا جاتا ہے۔

سماجی تبدیلیوں پر مسلسل نظر رکھتے ہوئے اخبارات کی مانیٹرنگ اور سروے کے ذریعے خواتین کی آراء اور ان کی مشکلات جاننے کے بعد رہنمائی کے لیے مسلسل لٹریچر کی اشاعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عورت پر ہونے والی قانون سازی کے حوالے سے قانون دانوں سے مشاورت کی جاتی ہے اور پاکستانی عورت کی آگہی کے لیے بڑی تعداد میں لٹریچر کی تقسیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اب تک کمیشن کے تحت درج ذیل عنوانات پر لٹریچر تیار کرکے بڑے پیمانے پر تقسیم کیا جاچکا ہے۔

قانون توہین رسالتؐ، حدود قوانین (اعتراضات و حقائق کا جائزہ) اسلامی تناظر میں عورت کے حقوق اور فرائض، سیاسی طور پر منتخب خواتین کے لیے تربیتی کورسز، خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت، حقوق نسواں کے عالمی ایجنڈے، حدود قوانین میں ترمیم کا بل2006ء اسکاجائزہ، حقائق و مضمرات، تحفظ حقوق نسواں بل، این جی اوز کے پروپیگنڈے کی حقیقت، خواتین کی فلاح کا منصوبہ، زوجین کی مصالحت میں خاندان کا کردار، ازدواجی زندگی کی مشکلات و مسائل کا ممکنہ حل، میاں بیوی کے حقوق اور فرائض، ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل پر تجزیاتی رپورٹ، اسلامی قوانین وراثت اور خواتین، خواتین کا عالمی دن، عالمی یوم حجاب، اسلامی قانون وراثت اور خواتین وغیرہ۔

ویمن اینڈ فیملی کمیشن کے زیر اہتمام مختلف فورمز پر نہ صرف معا شرے کی موثر اور صائب الرائے خواتین کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے بلکہ مختلف سماجی مسائل اور موضوعات پر تحقیقی رپورٹس بھی شائع کی جاتی ہیں۔بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن کا جائزہ وہاں کمیشن کی نمائندگی کرنے والی خواتین نے تیار کیا۔ اسی طرح حدود آرڈیننس، گھریلو تشدد کی حقیقت کیا ہے اور پروپیگنڈہ کیا ہے؟ مختاراں مائی کیس وغیرہ پر تجزیاتی رپورٹس شائع ہوچکی ہیں۔

بین الاقوامی کانفرنسوں میں کمیشن کے تحت نمائندہ وفود بھیجے جاتے ہیں تاکہ وہاں کی سماجی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر اپنے سماج کا بہتر تجزیہ کرکے خواتین کی مناسب رہنمائی کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔

ہم اپنے معاشرے کو اسلامی رول ماڈلز کی طرف متوجہ کررہے ہیں۔ پچھلے برسوں میں 8 مارچ عالمی یوم خواتین کو ہم حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ سے موسوم کرچکے ہیں۔ اس سال یوم خواتین حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کے کردار کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے اس موقع پر کثیر جہتی سرگرمیاں ترتیب دی گئی ہیں حضرت فاطہؓ کا خاندانی استحکام اور اولاد کی پرورش میں جو کردار ہے اس حوالے سے پمفلٹس، فولڈز وغیرہ ملک ے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیے جائیں گے ان کی شخصیت کو سیمیناراور مذاکرہ کا موضوع بنایا جارہاہے۔