March 29th, 2024 (1445رمضان19)

کُلُّکُم رَاعٍ

تحریر: رشیدہ عبداللہ (کینیڈا)

ہفتے بھر کی برف باری کے بعد آج سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ کئی روز کی اُداسی کے بعد سورج کی ضیا پاش شعاعیں خوشی و مسرت کا باعث بن گئیں۔ اللہ تعالیٰ کی بے کراں نعمتیں یاد آئیں۔ دل شکر نعمت کے جذبے سے سرشار ہوگیا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک قریب ہی پولیس وین کے ہارن سنائی دیے۔ گھبرا کر کھڑکی سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ گاڑی احمد صاحب کے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔
حیرت اور دکھ کے ساتھ معلوم ہوا کہ آج پھر ان کا بیٹا غلط دوستوں کے ساتھ 2 بجے رات تک گھومتا رہا ہے۔ واپسی پر باپ نے باز پرس کی تو بیٹے نے بدتمیزی شروع کردی اور باپ نے دو تھپڑ مار دیے۔ اس وقت تو بیٹا خاموش ہوگیا مگر صبح ہوتے ہی اس نے 911 پر کال کردی۔ سرکاری حکام نے باپ کو تنبیہ کی کہ اگر آپ نے دوبارہ اس پر زیادتی کی تو آپ کا بیٹا foster parents کے حوالے کردیا جائے گا پھر آپ کبھی اس سے نہ مل سکیں گے۔ احمد صاحب خون کے گھونٹ پی کر خاموش ہوگئے۔ یہ ایک سچا واقعہ ہے جو میری نظر سے گزرا۔ غیر مسلم ممالک میں رہتے ہوئے والدین کی ذمے داری اولاد کے لیے بہت بڑھ جاتی ہے۔ اولاد کو اخلاق و کردار کے اعلیٰ سانچوں میں ڈھالنا، قرآن و سنت سے روشناس کرانا ان کا اولین فرض ہے۔ اگر والدین خود دین دار، اعلیٰ اخلاق کے حامل ہوں گے تو بچے بھی ضرور تقلید کریں گے۔
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، خصوصاً ایک نارمل بچہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام اور خوشخبری ہے۔ اس کی قدر اُن خاندان والوں سے پوچھیے جو اولاد کے لیے ترستے ہیں۔ یہ تو اسی خالق کل کے اختیار میں ہے جو کسی کو لڑکا اور کسی کو لڑکی عطا فرماتا ہے اور کسی کو بانجھ کردیتا ہے۔ ہمارے بزرگوں کا کہنا ہے کہ بچے کی تربیت پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ علامہ اقبال کی والدہ جبکہ وہ ابھی پیدا نہ ہوئے تھے، قرآن بلند آواز سے پڑھا کرتیں تا کہ بچے پر اس کا اثر ہو۔ قرآن سے انہیں خاص شغف تھا۔ مسجد حسام الدین لاہور میں وہ جن علما کے زیر تربیت تھے، انہوں نے بھی آپ کو عربی و فارسی میں طاق کردیا تھا۔
امام بخاری کی والدہ ایک دین دار اور بااخلاق خاتون تھیں۔ وہ بہت چھوٹے تھے کہ ان کو انبیاء ؑ اور رسول اللہؐ کے اخلاق و کردار کے قصے سناتیں۔ رسول اللہؐ کی محبت ان کے دل میں ایسی پیوست ہوگئی تھی کہ ان کے دل میں حدیث رسولؐ سیکھنے اور حفظ کرنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ مگر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ابھی 6 ہی سال کے تھے کہ بینائی جاتی رہی۔ ماں مضطرب و بے قرار ہوگئیں۔ بارگاہ الٰہی میں تہجد میں آہ و زاری اور عجزو نیاز کا دامن پھیلا کر اپنے بیٹے کی بینائی کے لیے دُعائیں مانگتی رہیں۔ آخر ان کی عاجزی اور التجا قبول ہوئی اور بیٹے کی بینائی لوٹ آئی۔ ماں کی دعائوں اور محنت و توجہ نے انہیں آخر حدیث رسولؐ کا ممتاز ترین عالم بنادیا۔
سورۃ کہف میں سیدنا خضرؑ نے جب ایک یتیم بچے کی گرتی ہوئی دیوار درست کردی تو سیدنا موسیٰؑ کے اعتراض کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ یہ سب کچھ میں نے اللہ کے حکم سے کیا کہ (کان ابوھما صالحاً) ان بچوں کا باپ ایک نیک انسان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان بچوں کے خزانے کی حفاظت سیدنا خضرؑ کے ہاتھوں کی۔
سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کو ان کے والد عبدالعزیز نے جو مصر کے گورنر تھے، سیدنا طائوس بن کسیانؒ کے پاس تعلیم و تربیت کے لیے بھیج دیا۔ سیدنا طائوسؒ ان کو نماز کے لیے وقت پر پہنچنے کی سخت تاکید کرتے۔ ایک دن نماز پڑھنے کے لیے مسجد دیر سے پہنچے۔ پوچھنے پر بتایا کہ بال سنوار رہا تھا۔ فوراً ان کے باپ کو خط لکھا اور عمرؒ بن عبدالعزیز کی غلطی بتائی۔ انہوں نے فوراً ہی ایک آدمی کو مدینہ بھیجا کہ جاتے ہی عمر کا سر منڈوا دو۔ اس کے بعد کوئی دوسری بات کرنا۔ تربیت کا یہ انداز گو سخت تھا لیکن اس تربیت نے انہیں عمرؓ ثانی بنادیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک تربیت کرنے والے خود باکردار اور نیک نہ ہوں، بچے کو عمدہ تربیت دینا ممکن نہیں ہے۔ سب سے پہلا نمبر ماں کا ہے جو اپنے بچے کو شاہکار بناسکتی ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ ساری دنیا ایک متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔ (سنن النسائی، کتاب النکاح، باب المرأۃ الصالحہ، ج ۶، ص ۶۹)
ڈاکٹر ابکار ایک مشہور اسلامک تحقیق کار ہیں۔ شام سے تعلق رکھتے ہیں اور احیائے اسلام (Islamic Revival) پر ریسرچ کرتے ہیں۔ وہ سعودی عرب میں کئی مقامات پر اپنے مقالات پیش کرچکے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ والدین ہرگز اس خیال میں نہ رہیں کہ ادارے بچوں کو انسان بنادیں گے۔ اپنے بچوں کو باکردار انسان بنانے کے لیے انہیں خود محنت کرنا ہوگی۔ وہ لکھتے ہیں کہ گھروں میں بچوں کی تربیت کے لیے کچھ ایسے ہلکے پھلکے قوانین بنائے جائیں جو نہ صرف والدین کے لیے بلکہ بچوں کے لیے بھی مزاحمت کا باعث نہ بنیں۔
(1) نماز وقت پر پڑھوانے اور بچوں کو دوسرے دینی احکام سے مانوس کرانے کی کوشش کی جائے۔
(2) ہر ایک کا شکریہ ادا کرنا اور Please کہہ کر بات کرنا سکھائیں۔
(3) ہر بچہ اپنے خیالات و احساسات کو وضاحت اور عاجزی سے بیان کرنا سیکھے۔
(4) گالی گلوچ یا بدتمیزی یا بدگوئی کی اجازت نہیں ہو۔
(5) کوئی سو رہا ہو تو اس کمرے میں شور کرنے اور لائٹ آن کرنے سے پرہیز کیا جائے۔
(6) عصر سے مغرب کے دوران کوئی اچھی کتاب یا قرآن سب بچے مل کر پڑھیں۔
(7) کھانے پینے کی کوئی چیز بچے سے فرش پر گر جائے یا بچے نے کچن میں کوئی کام کیا مثلاً چائے وغیرہ بنائی تو صفائی کی ذمے داری بھی اسی کی ہوگی۔
(8) بڑے اگر آپس میں کوئی بات کررہے ہوں تو درمیان سے بچوں کو بات کاٹنے سے منع کیا جائے۔
(9) ہر بچہ اپنا کمرہ خود صاف کرے۔
(10) گھر کے سب لوگ دن میں ایک مرتبہ مل کر کھانا کھائیں۔ اگر دسترخوان پر بلایا جائے تو کوئی بچہ یہ نہ کہے ’میں بعد میں کھالوں گا، آپ کھالیں‘۔
(11) گھر سے جاتے ہوئے اور آتے ہوئے سلام کرنا۔
(12) والدین کا احترام کرنا، ان کے سر یا ہاتھ پر بوسہ دینا۔
(13) آنے والے مہمان کو گھر کے قوانین کا احترام کرنا ہوگا۔
(14) رات کو مقررہ وقت کے بعد سب کو سونا ہوگا۔ دیر تک جاگنا منع ہوگا۔ اپنا ہوم ورک project وغیرہ مقررہ ٹائم تک مکمل کرنا ہوگا۔
(15) ہر بچے کو روزانہ ایک صفحہ قرآن ضرور ترجمے کے ساتھ پڑھنا ہوگا۔
ڈاکٹر ابکار لکھتے ہیں کہ والدین کو چاہیے کہ ان اصولوں کو اپنائیں، ہم نے ان اصولوں کو بہت مفید پایا ہے۔
سیدنا سعیدؓ بن مسیب فرماتے ہیں کہ میں اپنی نماز اس لیے لمبی کرتا ہوں کہ کہیں میری نماز میں سستی اولاد کے لیے پریشانی کا باعث نہ بن جائے۔ سیدنا عبداللہؓ بن مسعود اپنے بیٹے کے سامنے، جب وہ قریب ہی سو رہا ہوتا نماز پڑھتے تا کہ ان کی اولاد میں بھی عبادت کا شوق پیدا ہوجائے۔
بچہ جب نو عمر ہوتا ہے، ماں باپ کی شفقت، محبت اور توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ ہر بات، ہر راز ماں کو بتاتا ہے مگر جیسے جیسے عمر کے اس حصے کی طرف بڑھتا ہے جسے بلوغت کا دور کہتے ہیں، اس میں بے پناہ قوت اور صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ وہ آتش فشاں پہاڑ کی مانند ہوتا ہے۔ ان حالات میں ہر بات پر سرزنش، روک ٹوک، سختی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ صورت حال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے محبت اور پیار کا رویہ اختیار کریں۔ اپنے بچوں کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ روک ٹوک اور سختی والدین سے دوری کا باعث بن جاتی ہے۔ نرمی اور شفقت کا رویہ اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے تا کہ ان کو ہر جواب میں ’نہیں‘ نہ سننا پڑے اور بچے والدین ہی کو اپنا محسن اور مددگار سمجھتے رہیں۔
جوان اولاد بڑھاپے میں والدین کا بہت بڑا سہارا اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ والدین کے ساتھ احسان اور خوش دلی کے ساتھ وقت گزارنا جنت میں لے جانے کا باعث ہے۔ اگر والدین فوت ہوچکے ہوں تو ان کی مغفرت کی دعا کرنا ان کے درجات کو بلند کرتا ہے۔ سیدنا اویس قرنیؒ اس لیے صحابیت کے درجے تک نہ پہنچ سکے کہ نبیؐ نے انہیں اپنے والدین کو اکیلا چھوڑنے کے بجائے ان کی خدمت کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ کاش! والدین اپنی اس نئی نسل کو محبت و حکمت کے ساتھ پروان چڑھا سکیں۔ دنیاوی تعلیم پر دینی تعلیم کو ترجیح دیں۔ ظلمات کی تاریکیوں سے بچا کر بہترین انسان بنانا آسان تو نہیں مگر ناممکن بھی نہیں۔ آخر میں رسول اللہؐ کا فرمان بھی دیکھ لیجیے جس کے مطابق ہم سے ہماری اس ذمے داری کا حساب لیا جائے گا۔
عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’سن لو کہ تم میں سے ہر شخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ وہ امام جو لوگوں پر نگراں ہے، اس سے رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے، اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ تم میں سے ہر ایک شخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘‘۔ (صحیح بخاری 2051)