April 20th, 2024 (1445شوال11)

امت مسلمہ مظاہروں سے آگے بڑھے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیلی دارالحکومت کو بیت المقدس منتقل کرنے اور وہاں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کے اعلان کے بعد سے امت مسلمہ میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے جگہ جگہ مظاہرے ہورہے ہیں۔ او آئی سی عرب لیگ کے اجلاس بھی طلب کرلیے گئے ہیں ان مظاہروں کا اثر ضرور ہوا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک قدم پسپا ہوئی اور اعلان کیا ہے کہ دو سال تک سفارتخانہ منتقل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ کوئی اعلان نہیں ہے کیونکہ اصل غلط کام اسرائیل کا دارالحکومت منتقل کرنا ہے اور اسے تسلیم کرنا بھی غلط ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو وہ بھی اسرائیل کا اقدام غلط ہے اور اگر امت مسلمہ کے موقف کو سامنے رکھا جائے تو بھی اسرائیل کی جانب سے قبلہ اول پر قبضہ جمانے کی سازش ہے۔ عالم اسلام میں جتنے بھی احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں ان میں سے بیشترصرف عوام کی سطح پر ہوتے ہیں اگر حکمران بھی ان مظاہروں اور احتجاجوں کی قیادت کرتے تو امریکا پر زیادہ اثر پڑتا۔ امریکی حکومت کی جانب سے دو سال تک سفارتخانہ منتقل نہ کرنے کا اعلان دراصل دھوکا ہے، عالم اسلام اور مسلمان حکمران ان مظاہروں اور احتجاجوں کے بل پر اپنے اندر قوت پیدا کریں کہ امریکا اسرائیل کے دارالحکومت کی منتقلی کے اعلان کو مسترد کرنے اور اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان بھی واپس لے۔ لیکن یہ کام محض احتجاجوں سے نہیں ہوگا، ایک زمانے میں اسرائیل بائیکاٹ آفس باقاعدہ کام کررہا تھا دنیا بھر میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جاتا تھا اب ایک اور قدم بڑھانا چاہیے، عالم اسلام کے جن ممالک کا اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کا سفارتی یا تجارتی تعلق سے سب سے پہلے اسے ختم کیا جائے۔ پھر یورپ اور امریکا کو یہ پیغام دیا جائے کہ اگر انہوں نے اسرائیل کو دارالحکومت بیت المقدس منتقل کرنے سے نہیں روکا تو اسلامی ممالک ان ممالک کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات ختم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ دنیا معاشی دباؤ ہی مانتی ہے جب ان کے پیٹ پر لات پڑتی ہے تو یہ بات سمجھتے ہیں۔ شاید یہ افسانہ لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مغرب مفادات کا تابع ہے ان کے مفادات خطرے میں ہوں گے تو ان کے لیے کوئی چیز اہمیت نہیں رکھے گی۔ خود مغرب کے بیشتر ملک عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں انہیں تو اسرائیل کے قدم روکنے میں تعاون کرنا چاہیے، لیکن اس کے لیے امت مسلمہ کی توانا آواز اور مضبوط موقف ضروری ہے اور یہ موقف اختیار کرنے والے حکمران بھی۔ اگر ایسے حکمران نہیں ہیں تو امت مسلمہ اپنے حکمران بھی بدل ڈالے.

بشکریہ جسارت