March 29th, 2024 (1445رمضان19)

ام المومنین سیدہ صفیہؓ

نام و نسب:

زرقانی کی روایت کے مطابق سیدہ کا نام ’’زینب ‘‘تھا لیکن جنگ خیبر میں جب مال غنیمت میں کاص رسول اللہ کے حصہ میں آئی تھیں اور عرب میں یہ دستور تھا کہ غنیمت کا جو حصہ امام یا بادشاہ کے لئے مخصوص ہوتا تھا اسے ’’صفیہ‘‘کہا جاتا تھا۔ اس لئے سیدہ بھی صفیہ کے نام سے مشہور ہوگئیں۔

سلسلہٓ نصب اس طرح ہے: صفیہ بنت حیی بن اخطب بن سعنہ بن ثعلبہ بن عبید بن کعب بن الخزرج بن ابی حبیب النضیر بن الخام بن تخوم

خاندانی تعارف:

حضرت مولانا محمد زکریا سنبھلی مدظلہ، معارف الحدیث میں سیدہ صفیہؓ کے خاندان کا تعارف اس طرح پیش کرتے ہیں:ام المومنین صفیہؓ کا باپ حیی ابن اخطب قبیلہ بنی نضیر کا سردار تھا اس کا سلسلہٓ نسب حضرت موسیٰ ؑ کے بھائی حضرت ہارون ؑ تک پہنچتا ہے ماں کا نام ضرہ ہے یہ قبیلہ بنی قریظہ کے سردار کی بیٹی تھیں۔

نکاح:

سیدہ صفیہؓ کا پہلا نکاح سلام بن مشکم القرظی سے ہوا تھا وہ ایک نامور شاعر اور سردار تھا لیکن دونوں میاں بیوی میں بن نہ سکی، آخر کار سلام بن مشکم القرظی نے انہیں طلاق دے دی، طلاق کے بعد ان کے باپ نے ان کا نکاح بنو قریظہ کے ایک نامور سردار کنانہ بن ابی الحقیق سے کردیا جو ابو رافع تاجر حجاز اور خیبر کے رئیس کا بھتیجا تھا۔۷ ہجری میں حضور انور نے یہودیوں کی سازشوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ان کے مرکز خیبر کا رخ کیا، خیبر مدینہ منورہ کے شمالی مغربی علاقہ میں نہایت زرخیز مقام تھا، یہیں جنگ خیبر ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح و نصرت حاصل ہوئی اور ’’القموص‘‘ جیسا مضبوط قلعہ بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔

کنانہ بن ابی الحقیق اپنے قلعہ ہی میں مارا گیا اس کے تمام اہل و اعیال کے ساتھ سیدہ صفیہؓ بھی قید ہوئیں اس جنگ میں سیدہ کے باپ، شوہر اور بھائی مارے گئے۔مذکورہ دونوں خاوندوں سے سیدہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

حریمِ نبوت میں آمد:

سیدہ صفیہؓ جنگ خیبر میں قید ہوکر آئیں وہ ابھی نئی نویلی دلہن تھیں ان کا شوہر جنگ میں قتل ہوگیا بعض حضرات نے رسول اللہ کے سامنے سیدہ صفیہؓ کے حسن و جمال کا تذکرہ کیا لیکن آپ نے کوئی توجہ نہ فرمائی۔ اسی اثناء میں حضرت وحیہ کلبیؓ نے عرض کیا، مجھے ایک لونڈی دلوا دیجئے۔ حضور انور نے فرمایا تم ایک لونڈی کا انتخاب کرلو۔انہوں نے حضرت صفیہؓ کو لے لیا۔سایک شخص نے رسول اللہ سے عرض کیا، صفیہ بنو قریظہ کی رئیسہ ہیں ایک سردار کی بیوی اور ایک سردار کی بیٹی ہیں، خاندانی وقار اور وجاہت ان کے چہرے سے عیاں ہے۔

حالانکہ وہ آپ کے سوا کسی اور کے لئے مناسب نہیں وہ تو صرف آپ ہی کے لئے سزاوار ہے مقصود یہ تھا کہ عرب کی رئیسہ کے ساتھ عام عورتوں کا سا برتاؤ مناسب نہیں۔چنانچہ ماہر نفسیات سورور دو عالم نے لوگوں کی نفسیات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ وحیہنؓ کومع اس لڑکی کو بلاؤ، حضرت وحیہ کلبیؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، رسول اللہ نے سیدہ صفیہؓ کو ایک نظر دیکھا اور حضرت وحیہؓ سے فرمایا : اے وحیہ:اس کی جگہ دوسری لونڈی پسند کرلو۔پھر ان کی دلجوئی کی خاطر ساتھ لونڈیوں کے بدلے سیدہ صفیہؓ کو ان سے خرید لیا۔

سید عالم نے سیدہ صفیہؓ کو آزاد کردیا اور انہیں اختیار دے دیا کہ چاہیں تو اپنے گھر واپس چلی جائیں۔ یا پسند کریں تو آپ کے نکاح میں آجائیں، سیدہ نے شہنشاہِ دو عالم کی زوجیت کو پسند فرمایا۔

سیدہ صفیہؓ کا مہر:

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے سیدہ صفیہؓ کو آزاد کرنے کے بعد ان سے نکاح فرمایا ثابت بنانی ہے حضرت انس سے دریافت کیا کہ آپ نے سیدہؓ کا مہر کیا ادا فرمایا تھا؟تو حضرت انسؓ نے کہا کہ ان کو آزاد کرنا ہی مہر ٹھہرا تھا۔

فضل و کمال:

ام المومنین سیدہ صفیہؓ میں بہت سے محاسنِ اخلاق جمع تھے:

ترجمہ:’’وہ عورتوں میں بہت ہی زیادہ عقلمند تھیں‘‘۔

علامہ زرقانی لکھتے ہیں:

’’سیدہ صفیہؓ عقل مند، بردبار، تحمل والی اور فاضلہ تھیں‘‘

حبِ نبوی

میاں بیوی کی باہمی محبت و الفت ہی گھر کو مثلِ جنت بنادیتی ہے اور زندگی کی گاڑی اچھی طرح رواں دواں رہتی تھی۔ام المومنین سیدہ صفیہؓ سرور دو عالم پر دل و جان سے فدا تھیں اپنی جانِ عزیز تک قربان کرنے کے لئے تیار تھیں، جب سیدہ عالم علیل ہوئے اور آپ کی ازواج آپ کی بیمار پرسی کے لئے حاضر تھیں، سیدہ صفیہؓ نے نہایت حسرت سے کہا:

’’خدا کی قسم!اے رسول اللہ!میں چاہتی ہوں کہ آپ کی بیماری مجھے لگ جائے(اور آپ صحت یاب ہوجائیں)۔‘‘

اس پر ازواج مطہرات سیدہ کی طرف دیکھنے لگیں۔حضور انور نے یہ کیفیت ملاحظہ فرماتے ہوئے یوں گویا ہوئے۔’’بخدا!صفیہ سچ کہہ رہی ہے۔ یعنی ان کا اظہار عقیدت نمائشی نہیں بلکہ سچے دل سے وہ یہی چاہتی ہیں۔

سانحہ ارتحال:

ام المومنین سیدہ صفیہؓ نے رمضان المبارک ۵۰ھ میں وفات پائی یہ زمانہ امیر معاویہؓ کی خلافت کا تھا اور جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔

بعض حضرات نے سن وفات۵۲ھ ذکر کیا ہے لیکن علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں پہلا قول صحیح ہے۔