March 29th, 2024 (1445رمضان19)

رمضان: ماہِ تزکیہ و جہاد

سید منور حسن

رمضان المبارک کی آمد سے ہر صاحب ایمان کے دل کی کلی کھِل اٹھی ہے۔ہر چہار طرف رمضان کی آمد اور اس کے استقبال کے لیے طبیعتوں کو آمادہ کرنے کے سامان فراہم کیے جارہے ہیں۔ ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو جانتا پہچانتا ہے اور اپنے زندگی کے شب وروز اور معمولات سے واقف ہے، لازم ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک کا بڑی بے چینی سے انتظار کرے، اس کے استقبال کی تیاری کرے، اور بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کی جو شکلیں رمضان المبارک میںنظر آتی اور دکھائی دیتی ہیں،ان کا نہ صرف پہلے سے احاطہ کرے، بلکہ ان تمام حوالوں سے اپنی زندگی کو  اس ماہِ مبارک میں مکمل طور پر تبدیل کرنے اوریکسوئی اور طمانیت کے ساتھ اپنے رب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھاکہ جب آپ رجب کا چاند دیکھتے تھے تو یہ دعا فرماتے تھے: اَللّٰھُمَّ بَارِکَ لَنَا فِی رَجَبْ وَ شَعْبَانْ وَبَلَغْنَا رَمَضَان، (اے اللہ! ہمیں رجب اور شعبان کی برکتیں عطا فرمائیے،اور رمضان المبارک تک پہنچا دیجیے)۔ ماہِ رمضان کی آمد سے دو مہینے پہلے ہی آپؐ کی طبیعت کا یہ اشتیاق چھلکا پڑتا تھا۔ رمضان المبارک کا استقبال کرنے کے لیے طبیعتوں کو جس طرح آمادہ ہونا چاہیے، اس دعا میں اس کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو رمضان المبارک سے بھرپور استفادہ کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ اس کی برکتوں کو سمیٹا جا سکے،اس کی رحمتوں کا سزاوار ہوا جاسکے، اس سے مغفرت کے پروانے حاصل کیے جاسکیں، دوزخ سے آزادی حاصل کی جائے اور نجات کی جانب چلا اور بڑھا جاسکے۔

نبی اکرمؐ کا رمضان کے لیے اشتیاق: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شوق، انتظاراور اشتیاق کا اظہار اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں تشریف لائے اوراپنے منبر کی طرف بڑھے۔ جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھاتو لوگوں نے سنا، آپؐ کی زبان مبارک سے کلمہ نکلا: ’’آمین‘‘۔ آپؐ  دوسری سیڑھی پر پہنچے، تو پھرفرمایا: ’’آمین‘‘۔ تاآنکہ آپؐ نے تیسری سیڑھی پر قدم رنجہ فرمایااور لوگوں نے پھر آپؐ کی زبان مبارک سے سنا : ’’آمین‘‘۔ آپؐ  کے خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ ایک انوکھی سی صورت آج ہمارے سامنے آئی ہے۔ آپؐ  کی زبان مبارک سے تین دفعہ ہم نے آمین کا کلمہ سنا ہے لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد ہم کوئی ایسی بات نہ جان سکے جس سے یہ معلوم ہوتا کہ یہ آمین کس بات پر کہی گئی ہے۔ آپؐ  نے ارشاد فرمایا کہ: جبرئیل ؑامینتشریف لائے تھے۔ جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو انھوں نے فرمایا کہ ہلاک اور برباد ہو جائے وہ شخص جو اپنے بوڑھے ماں باپ کویا ان میں سے کسی ایک کو اپنی زندگی میں پائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکے۔ میں نے اس پر کہا کہ آمین۔فرمایا کہ جب میں نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا توجبرئیل ؑامین نے فرمایا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص کہ جس کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی لیا جائے اور پھر بھی وہ آپؐ  پر درود نہ بھیجے تو میں نے کہا کہ آمین۔جب میں نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرئیل نے کہا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جورمضان جیسا رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ پائے اور پھر اس کی مغفرت نہ ہوسکے تو میں نے کہاکہ آمین۔

اس حدیث کوبالعموم ایسے بیان کیا جاتا ہے جیسے جبرئیل ؑامین نے کوئی بد دعا کی ہواور  حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرما ئی ہو۔حالانکہ بات اس سے مختلف ہے۔جب چاروں طرف بہار کا موسم ہو،پورا معاشرہ لہلہا رہا ہو، دُور تک پھیلا ہوا منظر گل وگلزار بناہوا ہو اور ہرگرا پڑا بیج برگ و بار لا رہا ہو، چٹانیں بھی سبزہ اگل رہی ہوں اور پتھروں سے بھی سبزے کی نمو نظر آتی ہو، ان حالات کے اندربھی اگر کوئی بیج واقعی گرا پڑا رہ جائے، برگ و بار نہ لاسکے،  اور اپنی نمو اور افزایش کا سلسلہ شروع نہ کرسکے، تواس کے لیے بد دعا کی نہیں بلکہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ واقعی وہ اس قابل تھا کہ ہلاک ہو جائے۔بالفاظ دیگر اس حدیث کے اندر ترغیب و تشویق اورتحریص کی ایک پوری دنیا آباد ہے کہ رمضان المبارک کو سمجھو، اس کے شب و روز کی برکات کو جانواور پہچانو، اس میں جو کچھ حسنات پنہاں ہیں، ان کو حاصل کرنے کے لیے اپنے دامن کو پھیلائو۔ اپنے رب سے رجوع کرنے کے جو عنوانات ہو سکتے ہیں، ان کو سجائو۔ جنت کے سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔ شیاطین قید کردیے گئے ہیں، نیکی کرنا آسان ہوگیا ہے۔ برائی اور گناہ کے لیے حالات کے اندر ایک ناسازگاری، اور طبیعتوں کے اوپر ایک گرانی جو پہلے نہ بھی پائی جاتی ہو، موجود ہے۔ ہرشخص یہ مصمم ارادہ کرلے،   یہ نیت دل کی گہرائی کے اندرسمو لے کہ بہت سے رمضان المبارک یوں ہی گزر گئے ہیں لیکن اس رمضان کو یوں ہی نہیں گزرنے دینا ہے، بلکہ اس کے اندر جو کچھ برکات موجود ہیں،ان سے استفادہ کرنا ہے۔ دل و دماغ کی دنیا میں جو کانٹے بچھے ہوئے ہیں، منکرات کے جوجھاڑ جھنکار نظر آتے ہیں، معصیت کے جو طوفان اٹھے ہوئے ہیں، گناہ کے لیے لذت اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف بڑھنے میں کوئی قدغن نظر نہیں آتی ہے، ان تمام چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔

استقبالِ رمضان کے تقاضے: استقبال رمضان اور اس کی برکات کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا، اس کا ایک ایک لفظ ایسا ہے کہ ہرلفظ سے انسان رہنمائی حاصل کرے، طبیعتوں کے اندر ایک گدازکی کیفیت پیدا ہو۔ایک خوف اور خشیت کی کیفیت محسوس ہو کہ کہیں یہ رمضان بھی پہلے رمضان کی طرح گزر نہ جائے۔ اگر یوں ہی گزر گیا تو پھر ہاے واے کرنا اور ہاتھ ملتے رہنابے معنی ثابت ہوگا۔ شعبان کی آخری شب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کو جمع کر کے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تم پر ایک بہت بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔جس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، دوسرا عشرہ مغفرت، اور تیسرا عشرہ دوزخ سے آزادی اور نجات ہے۔اس ماہِ مبارک میں ایک رات ایسی ہے، جس کو شب قدر  قرار دیا گیا، اس رات میں کھڑے رہنا اوراپنے رب سے لو لگانا، طبیعت مانتی نہ ہو، دل متوجہ ہوتا نہ ہو، لیکن اس رات کی ہر ساعت اور لمحے سے بھرپور استفادے کی کوشش کرنا کہ وہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔بندگی رب کی مسافت جو عام دنوں میں شاید ہزار مہینوں میں بھی طے نہ ہوسکے اور بندہ اپنے رب سے قربت کی منزلیںہزار مہینوں میں بھی پار نہ کرسکے، اس ایک رات کی چند ساعتوں کے اندراللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے وہ ساری رحمتیں، برکتیں اور مغفرتیںسمو دی ہیںکہ اس ایک رات کے اندر ہزار مہینوں کا سفر طے ہوجاتا ہے، اور بندہ اپنے رب سے قربت کے تمام نشانات منزل کو دیکھتا ہوا منزل تک پہنچ جاتا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ جو شخص اس ماہِ مبارک میںروزے دار کا روزہ افطار کرائے تو اس روزے دار کے اجر میں کوئی کمی کیے بغیربارگاہ رب العزت سے اس افطار کرانے والے کو بھی اس روزے دار جتنا اجر اور ثواب مل جاتا ہے۔صحابہ کرام ؓ میں نیکی کے معاملے میں سبقت لے جانے، خیر کا کوئی عنوان ترک نہ کرنے اور اس تک پہنچنے کی کوئی سبیل تلاش کرنے کی آرزو، خواہش اور تڑپ بدرجۂ اتم موجود تھی۔ حضرت سلمان فارسیؓ جو اس خطبے کے راوی ہیں،انتہائی ناداری اور کس مپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے اور اکثر صحابہ کرام ؓ کی یہی کیفیت تھی، یہ بات سن کر بے قرار ہوگئے اور عالم بے تابی میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور ہم جیسے لوگ جنھیں اپنی افطاری کا سامان بھی میسر نہیں ہے،وہ بھلا دوسروں کو کیا افطار کرائیں گے۔تو کیا ہم  اس عظیم اجر، ثواب اور صلے سے، اور خیر کے اس کام سے محروم رہیں گے؟ نیکی کی طرف جانے کی ایک تڑپ اورنیکیوں کا انبار لگانے اور اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی کسک ہے کہ یہ بات سنتے ہی بول پڑے ہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اگر تم لسی یا پانی کے ایک گھونٹ سے بھی کسی کو افطار کرائو گے تو اجر اور صلے سے محروم نہ رہو گے۔ہاں، اگر کسی کے اندر یہ استطاعت ہے کہ وہ روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے، تو روز محشر وہ حوض کوثر پر جام کوثر سے فیض یاب ہوگااور اپنے جاے مقام تک پہنچنے میں اسے پیاس تک محسوس نہ ہوگی۔

ماہِ قرآن:رمضان المبارک کی برکت اصلاً توقرآن پاک کے نزول کی وجہ سے ہے۔ اس مہینے میں قرآن پاک نازل ہوا اور پھر جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت نے یہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں پر روزے فرض کیے جائیںتو مہینوں میں اس سے بہتر مہینہ کوئی اور ہو نہیں سکتا تھا جو پہلے سے با برکت ہے، رحمتوں کا خزانہ ہے، ہدایت کا مرقع ہے۔جس میں پہلے سے حق اور باطل کے حوالے سے دلائل موجود ہیں، ایک فرقان کی صورت میں اس کو بیان کر دیا گیا ہے، ایک پیمانے کی صورت میں لوگوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ وہ ماہِ مبارک جو نزول قرآن کی وجہ سے پہلے ہی بابرکت تھااسی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے روزے بھی فرض کیے تاکہ اس کو نور علیٰ نور بنا دیا جائے، اس کے فیض کو دوچند کردیا جائے۔اس کی ہدایت انسان کو چاروں طرف سے ایسے گھیر لے کہ اس کے بعد ہدایت کا کوئی اور عنوان زندگی میں باقی نہ رہے۔شب و روز کے ایک ایک لمحے کے اندر اَن گنت دروازے کھلے ہوںجن سے فیض یاب ہوا جا سکے، رب سے رجوع کیا جا سکے،تعلق باللہ کی استواری ہو سکے۔ اور اپنے گناہوں،سیاہ کاریوں اور معصیت کے حوالے سے اپنی اصلاح، تزکیہ نفس، اوررب کی طرف چلنے اور بڑھنے کا پروگرام ترتیب دیا جاسکے۔

آپ کی ھمدردی و غم خواری کے منتظر! حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کو ہمدردی و غم خواری کا مہینہ قرار دیا۔ لکھنے اور پڑھنے والا اس کو لکھ کر، پڑھ کر یا سن کر گزر جاتا ہے لیکن کبھی ایک لمحے کے لیے رُک کر، ٹھیر کر آپ نے سوچا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ ہمدردی کس سے کی جائے اور کیسے کی جائے؟ ہمارا معاشرہ مجبوروں اور محروموںکا معاشرہ ہے،قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگ ہیں جن کو دو وقت ٹھیک سے کھانے کو میسر نہیں آتا،چادر سر کی طرف لے جائیں تو پیر کھل جاتے ہیں،پیر کی طرف لے جائیں تو سر کھل جاتا ہے۔ لوگ غموں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، کمریںان کی دوہری ہو گئی ہیں،کم عمری کے اندر لوگ بوڑھے ہو گئے ہیں،غموں کے بوجھ نے ان کو ہلکان کر دیا ہے۔ ان کے دلوں کو پسیجنے، زخموں پر پھایا رکھنے اور ان کی کتھا سن کران کے دلدّر دُور کرنے کے لیے ہمدردی کے دو بول بھی کافی ہیںلیکن  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور صحابہ کرامؓ کی زندگیاں اس ماہِ مبارک کے حوالے سے کھلی کتاب کی طرح سامنے آتی ہیں۔حضور نبی کریمؐ نے تلقین کی ہے کہ اس بھری پڑی دنیا میں ایسے لوگوں کو تلاش کروجن کے غموں کو بانٹا جا سکے، جن سے ہمدردی کی جاسکے، جن کے روزوں کے اجروثواب کو اپنے حصے کے اندر لکھا جا سکے۔

الحمد للہ ہمارے معاشرے میں افطار پارٹی اور افطار ڈنر کا ایک کلچر موجود ہے۔ اس کو  جاری رہنا چاہیے،اس کے اپنے فوائد ہیں لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ میں جب افطار پارٹی کرتا ہوں تو اپنے جیسے لوگوں کو بلاتا ہوںاور چاہتا ہوں کہ اگر مجھ سے بھی بڑے رتبے اور شان و شوکت اور سٹیٹس کے لوگ آ جائیں تو افطار پارٹی کو چار چاند لگ جائیں گے۔افطار پارٹی فائیو سٹار بن جائے گی۔ اس خواہش کی وجہ سے ہمدردی وغم خواری کے مستحق لوگ محروم اور سوالیہ نشان بنے رہتے ہیں۔ اسی طرح گاہے ہم سوچتے ہیںکہ یہ جو سڑک پر پتھر کوٹتے رہتے ہیں، روڑے ڈھوتے اور مشقت اٹھاتے رہتے ہیں، ان کا کیا روزہ ہوتا ہوگا؟ حالانکہ یہ بڑا نازک معاملہ ہے ۔ روزے دارکی ہر نیکی جس پس منظر اورجس نیت سے کی گئی ہو،جس مشقت کو اٹھا کر اور جس قربانی کا پیکر بن کر کی گئی ہو، اس حساب سے اللہ تعالیٰ ۱۰ گنا سے لے کر ۷۰۰ گنا تک اس کا اجر پھیلاتے اور بڑھاتے ہیںلیکن حدیث قدسی کے مطابق روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ میری خاطرشب و روز کی مشقتیں اٹھاتاہے، بھوک اور پیاس برداشت کرتا ہے ۔ قوی مضمحل ہوں، اعصاب جواب دے رہے ہوں،اور دل و دماغ کی دنیااڑی اڑی اور ویران سی ہو، اس کے باوجود بھی     وہ میری رضا کے لیے روزے کی طرف آتا ہے تو یہ معاملہ کسی عددی ہندسے پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کا اجر میں ہی دوں گا۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ میں ہی اس کا اجر ہوں، یعنی بندے نے روزہ رکھا اور اسے اس کا رب مل گیا۔جب رب مل جائے تو پھر کسی اور چیز کی طلب باقی نہیں رہتی ہے۔ساری نعمتیں قدموں میں ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ ساری رحمتیں اور مغفرتیں وسعت دامن کے ساتھ ساتھ چلنے والی ہو جاتی ہیں۔

روزے کی فرضیت کے بارے میں قرآن پاک کی آیات اپنے اندر جو شیرینی،مٹھاس، ٹھنڈک اور طراوٹ لیے ہوئے ہیں اور جس طرح ہر پیرایہ، عنوان میں بندہ اور رب کے درمیان حجابات کو اٹھانے، واشگاف اندازمیں تعلق باللہ کی استواری اور آبیاری کرتی ہیں،وہ ایک عجیب اور انوکھا منظر پیش کرتی ہیں ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶) اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ (یہ بات تم انھیں سنادو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔

اس انداز میں کس قدر اپنائیت،طمانیت اور چاہت ہے، بندوں کی نسبت اپنی طرف فرمائی،میرے بندے کہا !! اور یہ سب روزے کا صلہ ہے ۔ بندگیِ رب کی مسافتیں طے ہو رہی ہیں، قربتیں پیدا ہو رہی ہیں،فاصلے سمٹ رہے اور دوریاں ختم ہو رہی ہیں۔

بندگیِ رب اور تزکیہ و تربیت:  رمضان المبارک کا پیغام تقویٰ اور صبر کا ہے، رحمت ومغفرت اور دوزخ سے آزادی اور نجات کا ہے ۔ رب کی رضا اور اس کے ذکر سے اپنے کو آراستہ پیراستہ کرنے کا ہے۔ اگر رمضان نہ ہو تو عید بھی نہ ہو، عید بذاتِ خود رمضان المبارک کا انعام و اکرام ہے۔ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ مشقت ہی راحت کا لطف دوبالا کرتی ہے۔ شب بیداری اور اپنے کو گھلانے اور تڑپانے کا عمل،نیند،آرام اور سکون کے مفہوم سے آشنا کرتا ہے۔ بھوک پیاس ہی،کھانے پینے کی لذت اور اہمیت اُجاگر کرتی ہے۔ اس لیے رمضان المبارک، زہد و مجاہدہ کاپیغام لے کر آیا ہے۔ جاں نثاری اور فداکاری،اطاعت و فرماں برداری، اخلاص و للہیت، جہاں ایمان باللہ والرسول کے لازمی تقاضے ہیں، وہاں روزہ اور رمضان المبارک کے معمولات  ان خصوصیات و کیفیات کو پرورش دینے، دوام بخشنے اور لمحہ لمحہ ان کی رہنمائی اور سایے تلے زندگی بسرکرنے کا عادی بناتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ روزہ نفس پر شاق ہونے کے اعتبار سے تمام عبادات میں نمایاں ہے ۔جس قدر انسانی مرغوبات ہیں، پسند اور چاہت کے عنوانات ہیں، سب پر کچھ نہ کچھ پابندیاں، قواعد و ضوابط کے بندھن،اور پہرے بٹھادیے جاتے ہیں۔ حلال و طیب، جائز اعمال سال کے گیارہ مہینے جن پر کوئی قدغن نہیں، اس ماہِ مبارک میں ان کو از سر نو ترتیب دیا جاتاہے۔ بندۂ مومن اپنے رب کی رضا، اس کی ہدایت کی پابندی اور اس کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کے لیے بخوشی ان پابندیوں کو قبول کرتاہے۔ ایمان کی لذت سے آشنا ہوتاہے۔ تعلق باللہ کا کیف و سرور، کچھ مشقت اٹھا کر،پابندیاں سہ کر دوچند ہوجاتاہے۔روزہ سخت کوشی کی تربیت دیتاہے۔ ایک طرف کھانا پینا، سونا اور آرام کرنا کم، جب کہ دوسری طرف غیبت، جھوٹ، لڑنا جھگڑنا، فضول اور نکمی و بے مقصد گفتگو بھی روزے کے اعلیٰ مقاصد کی نفی قرار پاتے ہیں۔ بلاشبہہ روزہ کھانے پینے کے شوق کو  اُکسا دیتاہے، اس اکساہٹ کو دبانا، نہ کہ پرورش دینا، اس سے نجات پانا نہ کہ ناز نخرے اٹھانا مطلوب ہے اور تزکیہ نفس کے جلی عنوات سے عبارت ہے۔ جن حضرات کو تسلسل سے روزہ رکھتے ہوئے ۶۰،۷۰ سال ہوگئے ہوں، انھوںنے گرمی کے روزے، سردی کے روزے، جوانی کے روزے، بڑھاپے کے روزے، صحت کے روزے، عدم صحت کے روزے،غربت اور ناداری کے روزے،سہولتوں اور آسایشوں کے روزے رکھے ہوں گے۔ خوش حالی اور خستہ حالی،سفر و حضر، دھوپ چھائو ں، تنگی ترشی سے گزرے ہوںگے۔ وہ سراپا اس کی گواہی دیں گے کہ یہ عبادت ہر طرح کے حالات میں بندگی کی تربیت دیتی ہے۔ برسہا برس اس فرض کی پکار پر لبیک کہتے کہتے، اس عبادت سے استغنا اور بے نیازی نہیں پیدا ہوتی،بلکہ طلب،آرزو اور کیف و سرور کی لذت و آشنائی، بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے ۔

رمضان المبارک صیام اور قیام سے عبارت ہے، یعنی دن کو روزے اور رات کو قرآنِ پاک کے ساتھ شغف اور تعلق کی آبیاری !دن بھر نفس کو بھوکا پیاسا رکھ کر اس قابل بنایا جاتاہے کہ قرآن سن سکے اور جذب وانجذاب کے مراحل سے گزر سکے ۔ یوں نفس کی کثافتیں دور کی جاتی ہیں تاکہ قرآن پاک سے حقیقی مناسبت پیدا ہوسکے ۔ دن بھر نفس کو قابو کیا جاتاہے۔ منہ زور گھوڑے کو لگام دی جاتی ہے۔ پھر منزل (قرآن پاک )کی طرف اسے روانہ کر دیا جاتاہے۔ صیام اور قیام، دونوں سے مل کر ہی وہ انسان تشکیل پاتاہے جو اسلام کا انسانِ مطلوب ہے۔

یہ بات ذہن و دل کے دوردرازگوشے میں بھی مستحضر رہنی چاہیے کہ ’عبادات ‘ ازخود مطلوب ہیں۔ ان میں پنہاں حکمتیں، مادی اور دینوی فوائد اپنی جگہ لیکن ان کا اللہ کی ہدایت وحکم ہونا اس امر کے لیے کافی ہے کہ انھیں دائماً ظاہری آداب اور باطنی محاسن سے آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور ان کے لیے سنتِ ثابتہ سے رہنمائی لی جائے۔ آخرت کی جواب دہی کے تصو رکو زندہ و تابندہ کیا جائے اور بجا طور پر دنیا میں خلافت اور نیابت کے جس منصب پر ہمیں فائز کیا گیا ہے، عبادات سے اس کردار کو ادا کرنے میں مدد لی جائے۔

روزے کی نفسیات اور جزئیات پر جس قدر غور کیا جائے،حقیقت یہ ہے کہ بندگی رب کا سفر طے کرنے، معراج ِانسانیت کو پہنچنے، نیز انسانی معاشروں کو قیادت و سیادت فراہم کرنے، معروف کی چمن بند ی اور منکر کے جھاڑ جھنکار سے نجات دلانے کے لیے ’روزہ ‘ فیصلہ کن عمل انگیز (catalyst) کا کردار ادا کرتاہے ۔ مستحکم قوتِ ارادی،عزمِ صمیم، کرنے اور کر گزرنے کا داعیہ،  تعلق باللہ کی استواری، اپنے رب سے ایک اٹوٹ اور جیتے جاگتے تعلق کی آبیاری،اس کی رضا جوئی کی بڑھتی ہوئی طلب، یہ وہ صفات ہیں جو روزے سے پیدا ہوتی ہیں۔

رمضان اور جہاد: رمضان المبارک انفرادی سطح پر بلندیوں، رفعتوں اور تعلق باللہ کی پہنائیوں کا سفر طے کراتا ہے۔ ہر نفل کا صلہ فرض کے برابر، ہر فرض ۷۰ گنا اجر کا حامل،لیلۃ القدر بندگیِ رب کی ہزارماہ کی مسافت طے کرادیتی ہے،روزے کا اجر و صلہ، خود اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات بابرکات عطا کرتی ہے اور بندے کو اس کا رب مل جاتاہے۔ بعینہٖ اسی طرح رمضان اجتماعی اور ملّی سطح پر بھی فتح و ظفر اور کامیابیوں اور کامرانیوں کا عنوان ہے۔ معرکۂ بدر اور فتح مکہ کے ابواب رقم ہوتے ہیں۔ ہمارے اپنے منظر نامے میں محمد بن قاسم کی آمد اور یوم باب الاسلام،نیز پاکستان کا قیام، ستائیسویں شب کا انعام ہے۔ اس ماہِ مبارک سے انفرادی اور اجتماعی طورپر سبق لینا ضروری ہے۔ ایک طرف تعمیرسیرت،تزکیہ نفس اور اخلاق و کردار کی مضبوطی مطلوب ہے، اور دوسری طرف اجتماعی مسائل، کشمیر، فلسطین کی آزادی اور امریکی مداخلت اور چیرہ دستیوں سے پاک معاشرے اور طاغوت کی فرماں روائی سے آزاد معاشرے کے قیام کے لیے کوشش و کاوش اور جدوجہد بھی ضروری ہے___ گویا تزکیۂ اور جہاد دونوں مطلوب ہیں!!

اس بار رمضان المبارک اس حال میں طلوع ہو رہاہے کہ پوری اُمت میں بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے۔ ہزار ہا ہزار فرزندانِ توحید اور شمعِ رسالت ؐ کے پروانے اپنے رب کی طرف دیوانہ وار بڑھ رہے ہیںاور طاغوت کی فرماں روائی کو چیلنج کررہے ہیں۔ قرآن وسنت کی بالادستی کے لیے اور اسلام کو ایک نظامِ حیات کے طور نافذ کرانے کے لیے شب و روز کی کوششوں اور مشقتوں میں اپنے پیروں کو غبار آلود کررہے ہیں۔

رجب سنہ ۲ ہجری میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ گویا پچھلی اُمت منصب قیادت و رہنمائی سے ہٹادی گئی اور اُمت مسلمہ کو اس ذمہ داری پر فائز کردیاگیا۔ سن ۲ہجری کے اگلے مہینے، شعبان المعظم میں رمضان کے روزے فرض کردیے گئے ۔ گویا قیادت و سیادت کی تربیت اور تزکیے کا اہتمام اور رہنمائی کے منصب کے لیے صلاحیت و استعداد کو پرورش دینے کا عمل رمضان المبارک سے جوڑ دیا گیا۔ سنہ ۲ہجری کے اگلے مہینے، رمضان المبارک میں،جہاد وقتال کا حکم نازل ہوا۔ ہمارے حالات آج بھی سنہ ۲ہجری کے تین ماہ میں ربانی فیصلوں اور ان کی ترتیب میں اُمت کے لیے کچھ کرنے اور کر گزرنے،بے خطر آتش نمرود میں کودپڑنے اور اُمت کی بگڑی بنانے کی طرف بلا رہے ہیں۔ نہتے اور بے سروسامان غازیوں، مجاہدوں اور صف شکنوں کے قافلے رواں دواں ہیں، پیروں کو غبار آلو د کرتے ہوئے، سرسے کفن باندھ کر جان ہتھیلی پر لیے بآواز بلند پکارتے ہوئے کہ ع یہ بندہ دو عالم سے خفا تیرے لیے ہے، منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نشانات منزل عبور کررہے ہیں۔ رمضان المبارک ان جذبوں کو مہمیز دینے کے لیے طلوع ہو رہا ہے، بھولا ہوا سبق یاد دلانے اور تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر، ماضی سے اپنے رشتے استوار کرنے کے لیے رب کی رضا اور اس کی جنتوں کے حصول کے لیے میری نماز،میری قربانی، جینا اور مرنا رب العالمین کے لیے ہے، اس کا ورد کرتے ہوئے پوری اُمت میں ایک طرف جہاد کا کلچر فروغ پارہاہے اور اس کے ساتھ ساتھ دعوت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کی تحریک زور پکڑ رہی ہے ۔ بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی طرف لے جانے کی تدبیر روبۂ عمل آرہی ہے۔

لوگ اس شعور سے مزین اور آشنا ہوتے جارہے ہیں کہ اُمت کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، ۵۷ حکومتیں ہیں،اتنی ہی فوجیں ہیں، ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بھی ہے، مادی وسائل، جغرافیائی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے خطے،اُمت کے ہم رکاب ہیں___ لیکن اے بسا آرزو،  یہ سارے وسائل دشمن کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، اسے لا جسٹک سپورٹ فراہم کی جارہی ہے۔اللہ اور اس کے رسولؐ کے باغیوں کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں،انھیں کھل کھیلنے  کا موقع جابجا دیا جارہاہے۔سارے مسلم حکمران، الاماشاء اللہ،امریکا اور مغرب کی چوکھٹ پر   سجدہ ریز ہیں، غیروں کی دی گئی ہر ڈکٹیشن انھیں قبول ہے، طاغوت کی ہر پالیسی پر آمنا وصدقنا اور بلاچوں وچراسرتسلیم خم کردینا ہمارے حکمرانوں کا شیوہ ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں نوجوان غول درغول ردعمل کا شکار ہورہے ہیں، اشتعال کے حوالے ہورہے ہیں، ’جہاد ‘ کی نئی نئی تعبیریں بھی سامنے آ رہی ہیں ۔ لیکن جدوجہد کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہواہے___  قال اللّٰہ وقال الرسول کی پکارجا بجاسنی جارہی ہے، منبر و محراب سے وابستگی میں اضافہ روز کا تجربہ ہے،   ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر جانیں نثار کرنے والے، ڈنکے کی چوٹ پر شمع رسالت کے پروانے بنے ہوئے ہیں،ختم نبوت کے عقیدے سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کے لیے استدلال کی قوت اور قوت کے اظہار کے لیے سرگرداں ہیں ۔ ایسے میں رمضان المبارک کی ساعتیں بآواز بلند بھی اور بانداز خفی بھی  ع  فضائے بدر پیدا کر نے ......کی سرگوشیاں کررہی ہیں!

اُمت کے لیے لمحۂ فکریہ! رمضان المبارک میں اہل علم اور فقہاے کرام پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کا تجزیہ کریں اور ٹھنڈے دل و دماغ سے اُمت کی، بالخصوص نوجوانوں کی رہنمائی کریں، ان کی توانائیاں اور قربانیاں ضائع نہ ہونے پائیں، ان کی  قوتِ کار کو صحیح رُخ دیں، ان کی تڑپ اور کسک کو محسوس کریں، اور طاغوت کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے والوں اور ان کے آگے بند باندھنے والوں کی علمی وفکری رہنمائی بھی کریں اور عمل کی دنیا میں ترجیحات اور الاھم فالاھم کی ایسی تشریح بھی کریں جو طمانیت قلب کا باعث بن سکے۔ اگر لبنان کے حزب اللہ،فلسطین کے حماس، کشمیر کے حزب المجاہدین اور افغانستان کے طالبان نوجوانوں کے لیے مثال اور نمونہ بن رہے ہیں اور خوابیدہ اُمت کو جگانے کا ذریعہ بن رہے ہیں، تو یہ لمحۂ تاریخ ماضیِ قریب اور بعید کے اَن گنت تجربات سے سیکھنے اور اُمت کو اصلاح کی طرف مائل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ رمضان المبارک اس کا وافر سامان بہم پہنچانے کا ذریعہ ہے۔

قرآن پاک کی رہنمائی، اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا، شب قدر کی فیصلہ کن اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے جڑی ہوئی یقین سے سرشار، انشراح صدر کی دولت، حالتِ روزہ کی پاکیزہ گھڑیاں اُمت کے ایجنڈے پر غور وفکر کے لیے صرف ہونی چاہییں ۔ اُمت کی زبوں حالی کہ ع ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات، اور اس کے متوازی، بیداری اور رجوع الی اللہ کی لہر کی قدر افزائی اور حوصلہ افزائی کی اجتماعی طور پر ضرورت ہے۔

رمضان المبارک کی رہنمائی ہمہ جہت ہے، ہمہ وقت ہے، ہر لمحے اور تاقیامت ہے۔    غزوۂ بدربھی اگر محض ایک واقعہ ہوتاتو تاریخ کا حصہ بن چکاہوتا، ماضی کے جھروکوں میں گم ہوگیا ہوتا، لیکن یہ رہنمائی ہے ۔ ایک ابدی پیغام ہے اور قیامت تک کے لیے دیوارپر لکھی تحریر ہے  ع بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ! اس کے پیغام میں تازگی و نمو ہے، سیرابی اور شادابی ہے کہ جب عقیدوں کی جنگ ہو، تہذیبوں کا معرکہ ہو یا اصولوںکی آویزش___اس میں عددی قوت،اسلحہ اور ساز وسامان، آلات ِ حرب و ضرب ثانوی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں، فیصلہ کن حیثیت اور اقدام کی صلاحیت عقیدہ و اصول کی ہوجاتی ہے۔ قیامت تک یہی کلیہ کارفرمارہے گا ۔ رسیوں اور لاٹھیوں کو سانپ سمجھ کر ان سے خوف زدہ ہونے والے ایک تاریخ رقم کریں گے اور اژدھوں اور سانپوں کو    بے معنی اور پرکاہ کے برابر اہمیت نہ دینے والے بھی ۔ تن و توش کروفر اور سائنس وٹکنالوجی کی ایجادات پر غرہ کرنے والے اور ناخدائوں کو خدا بنانے والے بھی موجود رہیں گے اور کئی کئی وقت کے فاقوں سے پیٹ پر پتھر باندھنے والے اور جنت کی خوشبو اور اس کی لپٹوں سے سرشار ہونے والے بھی حق و باطل کے اس معرکے میں اپنی گردنوں پر سرسجائے، گردنیں کٹوانے کے لیے تیار نظر آئیں گے!

اہل علم ہی یہ کام کرسکتے ہیں کہ اُمت کو باور کرائیں کہ ہمارا اصل ہتھیار،ایٹم بم نہیں ہے، گو ہمیں اس کا بھی حکم دیا گیاہے کہ وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ (اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو۔ انفال ۸:۶۰)___ مگر ہمارا اصل ہتھیار اپنے رب پر جیتا جاگتا ایمان، قرآن پاک کی رہنمائی اور ہدایت کو سینے سے لگانا اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تک جانے کے تمام راستے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو کر گزرتے ہیں، آپؐ کی سنتوں کو اپنانا،  آپؐ  کی شریعت کے نفاذ کے لیے اٹھنا، اور آپؐ جو جدوجہد اور کش مکش ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں اس کا خوگر بننا، کامیابی کی نوید ہے۔

رمضان المبارک، تذکیر کاعنوان ہے: ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘‘ کا امید افزا پیغام ہے۔ ہمیں اس پیغام کو نہ صرف رمضان میں بلکہ باقی گیارہ مہینوں میں بھی تازہ رکھنے اور مقدور بھر اُمت کے ایک ایک فرد تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔