April 18th, 2024 (1445شوال9)

رمضان احتساب اور تقویٰ

مہر الدین افضل

الحمداللہ ہم شعبان کے مہینے تک پہنچ گئے ہیں اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ماہ رمضان ایمان اور صحت کے ساتھ عطا فرمائے۔آمین

وہ مبارک مہینہ جو اجر و ثواب کے بیش بہا خزانوں سے بھرا ہوا ہے جو نیتیوں کا موسم بہار ہے۔ ۔ ۔ جو ہمیں تبدیل ہونا سکھاتا ہے۔ ۔ ۔ جو جہنم سے آذادی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، جس کی ایک رات، ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ۔ ۔ جو ہماری دینی تربیت کرتا ہے  اور روح کو نئی تازگی دیتا ہے اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور بخششوں کا سمندر انتہائی پرجوش ہوتا ہے۔ جو سچے دل سے معافی مانگتا ہے اس کے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ جنت کے دروازے اور ثواب کے خزانوں کے منہ اہل ایمان کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔

رمضان اور تقوی

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کئے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ سورہ البقرہ آیت۱۸۳

اس آیت میں تین باتیں ارشاد ہوئی ہیں دو یقینی ہیں جبکہ ایک تخمینی۔ ۔ ۔ پہلی یقینی بات۔ ۔ ۔ تم پر روزے فرض کردیے گئے۔ ۔ ۔ دوسری یقینی بات۔ ۔ ۔ تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ ۔ ۔ اور تخمینی بات ہے۔ ۔ ۔ توقع ہے کی تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ یعنی یہ لازمی نہیں کہ روزے رکھنے سے تقوی بھی حاصل ہوجائے گا بلکہ یہ روزہ دار کی کوشش پر منحصر ہے جتنی زیادہ کوشش جتنے درست طریقے سے ہوگی اتنا ہی اچھا نتیجہ نکلنے کا امکان ہے۔ حضور کے ایک ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کے ساتھ ایمان اور احتساب ضروری ہے فرمایا جس نے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ اسکے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور یہ بات معلوم ہے کہ ۔ ۔ ۔  ایمان کوئی جامد چیز نہیں یہ گھٹتا اور بڑھتا ہے ہم شعور حاصل کرنے کی کوشش کریں تو اسے گھٹتا اور بڑھتا محسوس کرسکتے ہی ن کیوں کہ ہم اپنے اعمال ہی سے تو گھٹاتے اور بڑھاتے ہیں۔ ۔ ۔  اور احتساب بھی جتنا سخت کرنا چاہیں کرسکتے ہیں ورنہ جتنے چاہیں اتنے الاؤنسز اپنے آپ کو دے سکتے ہیں جو نرمی دوسروں کے لیے کسی حال میں روانہ ہو اپنے لیے عین تقاضائے وقت قرار دے سکتے ہیں۔

اپنا احتساب کیسے اور کتنا کیا جائے؟

ہر لمحے کا احتساب۔ ۔ ۔ اپنے جذبات و تعصّبات کا احتساب۔ ۔ ۔ اپنے نفس کی خواہشات کا احتساب۔ ۔ ۔ شیطانی ترغیبات کی جانب دل کے جھکاؤ کا احتساب۔ ۔ ۔ آخرت کے حساب کے خوف نے صحابہ کرام کو اتنا حساس کردیا تھا کہ وہ اپنی قلبی کیفیات کو بھی چیک کرتے تھے، مشہور واقعہ ہے کہ حضرت حنظلہ، بلند آواز میں کہتے ہوئے جارہے تھے کہ حنظلہ، منافق ہوگیا! حنظلہ، منافق ہوگیا! حضرت ابوبکر صدیقؓ راہ میں ملتے ہیں پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ حنظلہ، بتاتے ہیں حضور کی مجلس میں ہوتا ہوں تو ایمان کچھ اور ہوتا ہے، عمل کے ارادے بہت ہوتے ہیں لیکن جب آپ کی مجلس سے گھر آتا ہوں تو ایمان کی کیفیت کمزور ہوجاتی ہے عمل میں کمی آجاتی ہے حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں یہ ہی کچھ کیفیت میں بھی محسوس کرتا ہوں چلو حضور کے باس چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ وہاں جاتے ہیں کیفیت بیان کرتے ہیں اور آپ کے جواب سے دل کا اطمینان پاتے ہیں۔

ایک صحابی حضرت ابولبابہ کو حضور یہود کے پاس مزاکرات کے لیے بھیجتے ہیں وہاں ان سے بے اختیار ایک ایسا اشارہ ہوجاتا ہے جو مزاکرات کے لیے نقصان دہ ہوسکتا تھا اپنی غلطی کو فوراََ سمجھ جاتے ہیں، چہرہ فق ہوجاتا ہے، مسجد نبوی کے ایک ستون سے اپنے آپ کو باندھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ مجھے معاف کرے گا تو ستون سے آزاد ہوں گا کئی دن بعد تو توبہ قبول ہوتی ہے وہ ستون آج بھی ستونِ توبہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

لیکن اپنا احتساب کرتے ہوئے اپنی انسانی کمزوریوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ بھول جاتا ہے، غفلت کا شکار ہوجاتا ہے، اور حقیقتاََ کمزور ہے اس لیے اپنے احتساب میں بھی اتنی شدت نہ ہو کہ خود مایوسی کی طرف چلا جائے۔ حضور نے فرمایا۔ جس سے استغفار ( یعنی اپنا احتساب ، غلطی کا اعتراف، تبدیلی کا عزم) کو اپنے اوپر لازم کرلا اللہ تعالیٰ اس کو ہر تنگی سے نکال دیتے ہیں اور ہر طرح کی حزن اور یاس سے بچالیتے ہیں اور وہاں سے رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ تنگی کا علاج استغفار ہے۔ ۔ ۔ غم کا علاج استغفار ہے ۔ ۔ ۔

تقوی کیا ہے؟

کیا تقوی کسی ہیر اسٹائل کا یا ڈریس اسٹائل کا نام ہے اگر ایسا ہوتا تو مسلم معاشروں میں ماہ رمضان میں جگہ جگہ رمضان بوتیک اور رمضان ہیر کٹنگ سیلون کھل جاتے، لیکن ایسا نہین ہوتا۔ ۔ ۔ حضرت علیؓ کے بارے میں مشہور روایت ہت کہ ایک جنگ میں جب انہوں نے دشمن پر قابو پالیا اور قریب تھا کہ وہ آپ کی تلوار سے قتل ہوجائے تو اس نے آپ کے چہرہ مبارک پر تھوک دیا حضرت علیؓ فوراََ سے چھوڑ کو کھڑے ہوگئے سوال کیا گیا کہ کیوں چھوڑ دیا جواب دیا کہ پہلے میں اللہ کے لیے قتل کررہا تھا لیکن اس عمل کے بعد ذاتی انتقام بھی شامل ہوگیا۔

* کیا حضرت علیؓ اسے قتل کردیتے تو قیامت تک کسی کو یہ معلوم ہوسکتا تھا کہ اس قتل کے پیچھے ذاتی انتقام بھی کام کر رہا تھا؟

سوال یہ ہے کہ کیا آپ کی  زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہے یا ہونے کا امکان ہے؟

ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ سوال نا مناسب معلوم ہو لیکن آپ تھوڑا غور کریں گے تو کہیں گے کہ ہر مسلمان کی زندگی میں اس طرح کے واقع کا ہونا ممکن ہے۔

* اچھا ذرا روزے کی کیفیت یاد کیجیے جب تنہائی ہوتی ہے تو ہم کیوں نہیں کچھ کھا پی لیتے؟

* وضو کے دوران حلق سے نیچے پانی نہ جائے کیوں اتنی احتیاط کرتے ہیں؟

* نماز کو دیکھیے اگر امام سے کوئی غلطی ہوجائے کسی کو معلوم نہیں ہوتا لیکن وہ سجدہ سہو کرتا ہے جس سے سب کو معلوم ہوجاتا ہے؟

یہی تقوی ہے کہ آدمی ہر وقت یہ بات یاد رکھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے، اور ایک دن اس کے سامنے حاضر ہونا ہے، وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔

ویسے تو قرآن مجید میں تقوی کا ذکر بہت سارے مقامات پر ہے۔ ۔ ۔ تقوی کیا ہے؟ تقوی کے فائدے کیا ہیں؟ متقی کیسے ہوتے ہیں بیان کیے گئے ہیں، ہم ان میں سے چند پیش کرتے ہیں اس ترتیب سے کہ یہ ہماری پوری زندگی کا احاطہ کرتے نظر آئیں۔

سورہ بقرہ کی دوسری ہی آیت میں ارشاد ہوا کہ یہ قرآن بلاشبہ ۔ ۔ ۔ ۔ ہدایت ہے متقیوں کے لیے۔ ۔ ۔ اور اس ہدایت کی عظیم نعمت کا کون انکار کرسکتا ہے یہ ہدایت قدم قدم پر ہمیں گرنے سے بچاتی ہے اس کی قدر و قیمت تو وہی جان سکتا ہے جو اندھیرے میں ٹھوکریں کھا رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ نعمت متقی کو ہوش سنبھالتے ہی آسان اور سیدھے راستے پر چلاتی ہے اور زندگی کا اختتام نفسِ مطمئن کے طور پر کرواتی ہے۔

سورہ آل عمران کی آخری آیت میں ارشاد ہوا تقوی اختیار کرو امید ہے فلاح پاو گے۔ ۔ ۔ ہم میں سے کون فلاح و کامیابی کا خواہش مند نہیں بچہ ہوش سنبھالتا ہے اور کامیابی کا پیچھا کرنا شروع کردیتا ہے اور اس کے حصول کے کسی امکان کو  نہیں چھوڑتا۔ ۔ ۔ قرآن کہتا ہے تقوی والوں کی کامیابی کا زیادہ امکان ہے۔

سورہ طلاق کی آیت نمبر ۲ سے ۵ میں ارشاد ہوا جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور ایسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ ۔ ۔ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کردے گا اور اس کو اجر دے گا۔

سورہ یونس آیت  نمبر ۶۲ تا ۶۴ میں ارشاد فرمایا! سنو جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں دنیا اور آخرت میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔

سورہ یوسف آیت نمبر ۹۰ میں حضرت یوسف کی پوری سرگزشت سنانے کے بعد ارشاد فرمایا! حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقوی اور صبر سے کام لے تو اللہ کے یہاں ایسے لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا۔

سورہ زمر کی آیت میں ارشاد ہوا! اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ درگروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا یہاں تک کی جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جاچکے ہوں گے تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے سلام ہو تم پر اچھے رہے داخل ہوجاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے۔اب آپ نے یہاں تک پڑھ لیا ہے تو تھوڑا سا ہوم ورک بھی کرلیں سورہ بقرہ کے پہلے رکوع میں متقیوں کی صفات کا تفہیم القران سے مطالعی کریں۔ ۔ ۔ جزاک اللہ و خیر فی الدنیا والاخرہ۔آمین