April 24th, 2024 (1445شوال15)

ماہِ صیام (نیکیوں کا موسم بہار)

لیاقت بلوچ

ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے ۔ رب کریم کی عنایت سے اس عارضی، مختصر اور نا پا ئیدار زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کے استقبال اور اس کے فیوض و برکات سے استفا دہ لینے کا موقع میسر آرہاہے ۔یہ مہینہ نیکیوں کا موسم بہا ر ہے جس میں اللہ تعالیٰ عبادت وریا ضت اور ہر نوع کی نیکی اور بھلائی کا اجر پہلے کی نسبت کئی گناہ بڑھا کر عطا کرتا ہے ۔ ا س لیے مومن مسلم اپنے رب کی رضا اور خوشنودی میں پہلے سے زیادہ مستعد اور آمادہ و پابند عمل خیر ہو جا تا ہے ۔

۱۔ نیت و ارادہ

اہل ایمان کے لیے سب سے پہلے کام یہ ہے کہ اس ماہ مبا رک سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی ابھی سے خالص نیت اور پختہ ارادہ کر لیں ۔ نیت پر ہی تمام اعمال کا دارومدار ہو تا ہے رمضان کے پیغام اور اس کی عظمت وبرکت کے احساس کو تازہ کرلیں ۔ اسے کام کرنے کا عزم ارادہ کریں کہ جن سے آپ اور آپ کے مخاطبین کے اندر تقویٰ پیدا ہو ، مولانا سید ابو الاعلی مو دودیؒ اور دیگر اکا برین کی کتب ، کتابچوں کا مطالعہ اور قرآن سے گہرا تعلق پیدا کریں اور اس کے پیغام کو عام کریں ۔

۲۔ تلاوت قرآن

رمضا ن اور قرآن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے ۔ اس مہینے کا حاصل ہی قرآن سننا اور پڑھنا ،قرآن سیکھنا اور اس پر عمل کرنے کی استعدا د پیدا کر نا ہے ۔ اس لیے اس موقع پر تلاوت قرآن کا خصوصی اہتمام کیا جائے ۔ تلاوت قرآن کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ قرآن کے پڑھنے کا حق ادا کیا جائے اور قرآن کا حق یہ ہے کہ اسے سوچ سمجھ کر صحیح مخارج سے پڑھا جائے ۔ اور پھر اس پر عمل کیا جائے ۔ اور اس کا ابلاغ کیا جائے ۔ یعنی دوسروں کو بھی پڑھنے اور عمل کی ترغیب دی جائے۔

۳۔ احتساب و جا ئزہ

رمضان کا مہینہ ہر سال ہمیں احتساب کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ اس پو رے معاشرے کے ٹھیک ہونے سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ معا شرے کی اکائی یعنی فرد درست ہو ۔ذاتی احتساب وجائزہ کے ذیل میں رمضان کی اہمیت محتاج بیان نہیں ۔

غیبت ،چغلی ، لعن طعن ، بد گمانی ، تکبر ، ظلم ، غصہ ، جھوٹ ،وعدہ خلافی ، بد نکا ہی ، حسد اور بغض وغیرہ ...........یہ سب اخلاقی برائیاں ہیں ۔ ............اور ماہ رمضان ان برائیوں کا علاج کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے ۔اس موقع کو ضائع مت کیجیے ۔تحریکی ، سماجی ، خاندانی ، اور گھریلودائرے میں اپنے سابقہ رویوں کا خالصتاََ آخرت کے نقطۂ نظر سے جا ئزہ لیں ۔

۴۔ نماز با جماعت

قرآن مجید میں جگہ جگہ نماز با جماعت قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اور نما ز با جماعت قائم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ نماز کے تما م حقوق اد اکیے جائیں ۔ نماز کے حقوق کی ادا ئیگی کے لیے ضروری ہے کہ اذان کے بعد سب کام چھوڑ کر مسجد پہنچیں اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا فرمان ہے کہ ’’ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ وہ مطیع و فرمانبرادر بندے کی حیثیت سے روزِ قیامت اللہ سے ملے ، تو اس کو پا نچوں نمازوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور انہیں مسجد میں جماعت کے ساتھ اد اکر نا چا ہیے .......

با قا عدگی کے ساتھ نماز تراویح کا اہتمام کریں ۔ رات کے آخری تہائی حصے میں پڑھی جانے والی نمازتہجد بھی تقوی ٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے ، اس کا بھی التزام کرنے کی کوشش کریں ۔ سحرسے ذرا قبل اٹھ کر آپ با آسانی پورا ماہ صلوۃاللیل کا اجر حاصل کر سکتے ہیں ۔

۵۔ افطار

نبی اکر منے رمضا ن المبارک کو ہمدردی و غم خواری کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ ہمدردی کا ایک پہلو کسی روزے دار کا روزہ افطار کروا نا بھی ہے ۔ نبی کریم نے افطار کروانے کی ترغیب دی ہے ۔ نبی کریم کا فرمان ہے کہ ’’ جو شخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے تو اس کے لیے ، گناہوں سے مغفرت اور دوزخ کی آگ سے رہائی ہے ۔ اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا روزے دار کو ، اور اس سے روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔

.......افطار پا رٹیوں کو کھانے پینے کی نمائش کے بجا ئے دعوتی عمل کو مہمیز دینے کا ذریعہ بنائیں ۔

......غربا ، مساکین کو افطار پا رٹیوں میں ضرور دعوت دیں ۔

.....پہلے افطار ، پھر نماز اور آخر میں طعام کی ترتیب کو روا ج دیں ۔

۶۔ اہم ایام

یوں تو رمضان المبارک کا ایک ایک لمحہ تا ریخی اور یادگار ہے ۔ اس کے با وجود تاریخ اسلام کے کئی اہم مراحل کو رمضا ن سے نسبت حاصل ہے ۔اہل ایمان ۱۰رمضان المبارک کو یوم باب الاسلام، ۷رمضان المبارک یوم غزوۂ بدر، ۲۷رمضان المبارک یوم نزول قرآن، ۲۷ رمضان المبارک یوم آزادی پاکستان کوخصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں ۔

۷۔اعتکاف

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ اپنی کمر کس لیتے ، راتوں کو جاگتے ، اپنے گھر والوں کو جگاتے ، اورا تنی محنت کرتے جتنی کسی اور عشرے میں نہ کرتے ۔‘‘رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف آنحضرت کا معمول تھا ۔ ایک سال بو جو و نا غہ ہوا ۔ توآپ نے اگلے سال بیس دن اعتکاف کیا ۔

......رمضان المبارک مومن کی تیاری کا مہینہ ہے ۔ تا کہ بقیہ گیارہ مہینے شیطانی قوتوں سے لڑنے کی قوت فراہم ہو جائے ۔ اعتکاف اس تیاری کا اہم جزو ہے ۔

۸۔ لیلتہ القدر

اللہ تعالیٰ فرما تے ہے کہ شب قدر ہزارمہینوں سے افضل ہے حضرت امام بخاریؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے فرما یا :’’جس شخص نے شب قدر ایمان اور خود احتسابی کی حالت میں قیام کیا تو اللہ رب العالمین اس کے پچھلے تما م گنا ہ معاف فرما دیں گے۔‘‘

.......آخری عشرے کی پا نچ طاق راتوں ۲۱ ، ۲۳، ۲۵، ۲۷، اور ۲۹، کو اعتکاف اور شب بیداری کے لیے مختص کر دیں ۔

نبی نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو شب قدر کی یہ دعا بتائی ۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیاکرو ۔

الھمہ انک عفو تحب العفو فاعف عنی ۔،’’اے اللہ !بلا شبہ تو معاف کر نے والا ہے ،اور معاف کر نے کو پسند کرتا ہے ،پس تو مجھے معاف فرما دے ۔‘‘

۹۔انفاق فی سبیل اللہ

انفاق فی سبیل اللہ کو اس ماہ مبارکہ سے خاصی نسبت ہے اور اس کا اجر بھی عظیم ہے ۔نبی اکرم سارے انسانوں سے زیادہ فیاض اور سخی تھے ۔ لیکن رمضان المبارک میں آپ بارش لانے والی تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرما یا کرتے تھے ۔

اللہ کا قرب ، جنت میں اعلیٰ درجات اور نبی کی جنت میں ہمسا ئیگی ، اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرنے سے حاصل ہو تی ہے ۔ خود بھی انفاق کریں اور دوسروں کو بھی توجہ دلائیں ۔

......حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے صدقہ فطر کو فر ض قرار دیا ہے تا کہ روزے فضول ، لغو اور بے ہو دہ باتوں سے پاک ہو جائیں ۔ اور مسکینوں کو کو کھانے پینے کا سامان میسر آئے ۔ صدقہ فطر عید کی آمد سے پہلے ہی ادا کرنے کی کوشش کریں تا کہ غر با مسا کین بھی عید کی خوشیوں میں لطف انداز ہو سکیں ۔

آخری گزارش

رمضان المبا رک کی مبارک کی ساعتوں اُن شہدا کی شہادتوں کی قبولیت کے لیے بھی دعا کریں جو اسلام اور پا کستا ن کے لیے اپنی سب سے عزیز متاع ’’جان‘‘ کی بازی کھیل کر اپنا قرض چکا کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے زعما ؤں کی شہا دت اور حال ہی میں بنگلہ دیش کی ظالم حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر جناب مطیع الرحمن نظامی شہید کے درجات کی بلندی کے لیے بھی خصوصی دعا کریں اور اجتما عات اور پرو گرامات میں جماعت اسلامی کے ان زعما کی قربا نیوں اور اسلام وپا کستان کے لیے قیدو بند کی صعوبتوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ حسینہ واجد حکومت کی مذمت کریں اور پاکستان کی حکومت سے بھی ان بے گناہ افراد کی رہا ئی اور ان کی دی گئی پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد رکو انے کا مطا لبہ کریں اور اس حوالے سے حکومت پاکستان کی بے حسی کا تذکرہ کریں ۔