March 28th, 2024 (1445رمضان19)

روزہ ۔۔۔۔۔۔ اللہ کا بہت بڑا انعام

پروفیسر خورشید احمد

روزہ ایک عظیم عبادات اور دین کے ان ستونوں میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے جن پر اس کی پوری عمارت مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روزہ اللہ رب العزت کا اپنے بندوں پر ایک بہت ہی عظیم الشان انعام ہے اور اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

اللہ کے اس انعام کا ایک پہلو ایسا ہے جو اسے عبادات اور احکامِ الہیٰ میں منفرد بنا دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ وہ عمل ہے جس کا گواہ اللہ اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ نمازعماد الدین ہے مگر وہ دل کی حضوری کے ساتھ جسم کے ایسے اعمال و اظہار پر مشتمل ہے جن کی وجہ سے جماعت ہی میں نہیں، تنہائی میں، حتیٰ کہ گھر کی چار دیواری میں ادا کی جانے والی نماز بھی دوسروں کی نظر سے اوجھل نہیں ہوسکتی۔ حج تو پوری دنیا کہ مسلمانوں کا ایک اجتماع ہے ہی۔ اسی طرح زکوٰۃ اگر مکمل اخفا کی ساتھ ادا کی جائے تب بھی کم از کم ایک شخص، یعنی اس کا وصول کرنے والا تو اس راز میں شریک ہو ہی جاتا ہے۔ لیکن روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کا گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر ایک شخص سب کے ساتھ سحری کرے اور سب کے ساتھ افظار کرے، تب بھی تنہائی میں اس کے کھانے پینے سے احتراز کرنے کا گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر ایک شخص دنیا کو دھوکا دینے کے لیے روزے کے تمام اجتماعی آداب کا احترام کرے لیکن تنہائی میں کھا پی لے، تو دنیا کی کوئی آنکھ اس کے روزے پر شک نہیں کرے گی، البتہ اللہ اس کی حرکات سے بخوبی واقف ہوگا۔

روزہ صرف اللہ کے لیے ہے اور وہی اس کا گواہ ہے۔ اس طرح بندے کے رب سے تعلق کا یہ پہلو روزے کی امتیازی شان ہے کہ جلوت اور خلوت سب اللہ کے حکم اور اس کی رضا کے پابند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ اپنے تمام اجتماعی پہلوؤں کے باوجود صرف اللہ ہی کی رضا کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رب کریم نے یہ مژدہ بھی سنا دیا ہے کہ صرف وہ اس کا اصل اجر دینے کا ذمہ دار ہے۔ گویا روزہ بندے اور رب کا بلاواسطہ تعلق کا عنوان ہے اور صرف رب کا بندہ بن جانے کی علامت ہے اور یہی وہ چیز ہے جو اسے اسلام کی روح اور اس کے اصل جوہر کا مظہر بناتی ہے۔

صرف اللہ کابندہ بننے اور اس کی رضا کے لیے بھوک پیاس اور شہوت کی جائز ذرائع سے تسکین سے بھی اجتناب، انسان کو تقویٰ کی اس نعمت سے مالا مال کرتا ہے جو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے اور جو انسان میں وہ صلاحیت پیدا کرتا ہے، جو اسے اللہ کی ہدایت سے فیض یاب ہونے میں

ممد ومعاون ہو ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی ہدایت کے لیے جن کو اہل قرار دیا ہے وہ اصحاب تقویٰ ہی ہیں (البقرۃ۲:۲)۔روزہ انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرتا ہے جو اسے ہدایت ربانی سے مستفید ہونے اور اس کا علمبردار بننے کے لائق بناتا ہے۔ :’’ اے ایمان لانے والو تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تمھارے اندر تقویٰ پیدا ہوسکے‘‘۔(البقرہ ۳۸۱:۲) رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے اور روزے اور قرآن کا تعلق ایک جان اور دو قالب جیسا ہے۔ ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر بیان کرنے والی ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کہ روزے رکھے۔(البقرہ ۵۸۱:۲)

ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ نزول قرآن کا آغاز غار حرا میں ہوا جہاں حضور مسلسل عبادت فرماتے اور روزے رکھتے تھے، اور حضرت موسیٰ ؑ  کو جب تورات سے نوازا گیا تو ان ایام میں آپ بھی روزے کا اہتمام فرمارہے تھے۔ روزہ اور قرآن کا یہی ناقابلِ انقطاع تعلق ہے جس کا تجربہ اور جس کی شہادت امت مسلمہ ماہِ رمضان میں قرآن سے تعلق کی تجدید کرکے کرتی ہے۔ اس طرح روزہ ہماری زندگیوں میں ہدایت ربانی کو حرز جان بنانے کا ذریعہ اور وسیلہ بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کا عظیم ترین انعام نہیں تو اور کیا ہے؟

اس انعام الہیٰ سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ روزے کی حقیقت کو ٹھیک سے سمجھا جائے اور محض روایتاََ یا مسلم معاشرے کے ایک معمول کے طور پر نہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ اور اس کے مقاصد اور آداب کے پورے ادراک اور اہتمام کے ساتھ رازہ رکھا جائے، نیز رمضان میں حاصل کی جانے والی تربیت کی روشنی میں سال کے باقی ایام گزارے جائیں۔ جس طرح چارجنگ کے بعد گاڑی کی بیٹری اپنا کام ٹھیک ٹھیک انجام دیتی ہے، اسی طرح انسانی جسم اور زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے رمضان کے روزے اور قرآن سے تجدید عہد ، انسانی جسم و جان کی بیٹری کو چارج کرتے ہیں اور پھر باقی ۱۱ مہینے اس قوت کے سہارے یہ گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ اس سے بڑا انعام ہمارے رب کی طرف سے اور کیا ہوسکتا ہے؟

بندہ کے اپنے رب سے تعلق کے تین پہلو ہیں: پہلا اور سب سے اہم رب کو پہچاننا، اس سے عہد وفا باندھنا، ہر لمحے اس عہد کا ادراک رکھنا اور ہر دوسری غلامی اور وفاداری سے نجات پاکر صرف اللہ، اپنے خالق اور مالک کا بندہ بن جاتا ہے۔ دوسرا پہلو فرد کی اپنی ذات کی تربیت، تزکیہ اور ترقی ہے تاکہ وہ اپنے رب کے انسانِ مطلوب سے زیادہ سے زیادہ قربت حاصل کرسکے۔ اس کے لیے نمونہ اللہ کے پیارے رسول کا اسوہٓ مبارکہ اور سنتِ مطہرہ ہے۔ اپنی زات کی مسلسل اصلاح کوشش اصلاحِ ذات اور بندگی رب کا اولیں اور مستقل نقاضا ہے۔اس تعلق کا تیسرا پہلو دنیا اور اس کے رہنے والوں سے تعلق کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اللہ کی ہدایت ہی یہ رہنمائی بھی دیتی ہے کہ دوسرے انسانوں ، معاشرہ، ریاست، انسانیت اور کائنات، ہر ایک سے کس طرح معاملہ کیا جائے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو، اور حق و انصاف کے قیام کے ذریعے انسانوں کی زندگی خیر و فلاح کا نمونہ بن جائے۔

اسلام ان تینوں جہتوں کے باب میں صحیح رویے کا نام ہے۔ یہ سب اللہ کی بندگی کے ایک ہی دائرے کا حصہ ہیں اور کسی بھی جہت کو نظر انداز کرنا یا عبدیت کے دائرے سے باہر تصور کرنا شرک، بغاوت اور طاغوت کا بندہ بننے کے مترادف ہے۔ روزہ ان تینوں میدانوں میں بیک وقت بندہ کا تعلق اپنے رب سے جوڑنے اور اس تعلق کی روشنی میں زندگی کے ہر دائرے اور پہلو کو ہدایت الہیٰ کے مطابق گزارنے اور نور ربانی سے منور کرنے کا بہترین زریعہ ہے۔