April 19th, 2024 (1445شوال10)

سیرتِ رسولؐ ایک بہترین اسوۂ ہدایت ہے

تحریر: پروفیسر خورشید احمد

مولانا سید ابو الااعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’’سیرتِ سرور عالم‘‘ جلد سوم حال ہی میں شائع ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ پروفیسر خورشید احمد صاحب نے تحریر فرمایا ہے جو دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں انہوں نے چند بنیادی اور ضروری باتوں پر روشنی ڈالی ہے جو ان کے گہرے اسلامی شعور اور علم پر دال ہے اور اس قابل ہے کہ اس کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ یہ ایک جامع تحریر ہے اسی لیے ہم یوم ولادتِ رسولؐ کے موقع پر قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔

دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے انسان کی بنیادی ضروریات دو طرح کی ہیں:

ایک وہ جو عام مادی اور طبعی ضروریات سے متعلق ہیں، جن سے جسم اور جان کا رشتہ قائم رہتا ہے، اور پھر فرد اور معاشرے کا باہمی تعلق استوار ہوتا ہے… لیکن جسم و جان اور فرد اور معاشرے کے تقاضے فقط مادی اور طبعی ضروریات تک محدود نہیں، چنانچہ ضروریات کا ایک دوسرا اور اہم تر سلسلہ وہ ہے جو انسان کی اخلاقی، روحانی، نظریاتی اور تہذیبی زندگی سے متعلق ہے، اور یہ وہ ضروریات ہیں جن کی تکمیل کے بغیر فرد کے لیے صحیح معنوں میں انسان بننا ممکن نہیں۔

دراصل موخرالذکر ضرورتوں کا تعلق کائنات کی حقیقت اور اس میں انسان کے مقام اور کردار، اس کی سرگرمیوں اور جدوجہد سے ہے۔ زندگی کا مقصد کامیابی کے تصور، خیرو شر کے معیار اور مطلوب اور نامطلوب کے تعین ہی سے متعین ہوتا ہے۔ گویا دیکھنا یہ ہے کہ جو وسائلِ حیات میسر ہیں، ان کا استعمال کن مقاصد کے لیے اور کن اصولوں کے مطابق کیا جارہا ہے؟ اور ان کے نتیجے میں کیا انسانی زندگی خیر اور فلاح سے شادکام ہوتی ہے یا فساد اور تباہی اس کا مقدر بن جاتے ہیں۔

انسان کو اپنی طبعی ضروریات کی تکمیل کے لیے ایک تو مادی وسائل درکار ہیں۔ دوسری طرف اخلاقی، نظریاتی، روحانی اور تہذیبی ضروریات کے لیے رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت ہے۔ اللہ نے اپنی کمال رحمت و حکمت کے تحت ان دونوں ضرورتوں کو شانِ کمال کے ساتھ پورا کیا ہے اور وہ اس طرح کہ انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بناکر بھیجنے کا فیصلہ کیا، مگر اس سے پہلے زمین کو ان تمام وسائل سے مالامال کردیا جو انسان کی مادی اور طبعی ضروریات اور اس کے وجود کو باقی رکھنے اور ترقی کی اعلیٰ سے اعلیٰ منزلیں طے کرنے کے لیے مفید اور مددگار ہیں۔ گویا انسان کو زمین پر جو کردار ادا کرنا ہے، اس سلسلے کی تمام ضروریات بھی بالفعل فراہم کردی گئی ہیں۔ انسان کی دوسری نوعیت کی (اخلاقی، روحانی، نظریاتی اور تہذیبی) ضروریات کے سلسلے میں تخلیقِ آدم کے وقت ہی انسان کو اس کے اصل مقام سے آگاہ کردیا گیا تھا اور اسے بتادیا گیا تھا کہ اسے زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار ادا کرنا ہے اور ساتھ ہی اس ذمہ داری اور کردار کو ادا کرنے کے لیے جن صلاحیتوں کی انسان کو ضرورت تھی، وہ اُسے روزِ اول ہی سے ودیعت کردی گئیں، یعنی اول: اُسے عقل سے نوازا گیا، دوم: اُسے ارادے، اختیار اور فیصلے کی صلاحیت دی گئی، اور سوم: اس سلسلے میں جس علم کی ضرورت تھی وہ بھی اسے عطا کردیا۔ فرمایا:

(ترجمہ) ’’پڑھو اے نبیؐ! اپنے رب کے نام کے ساتھ، جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمہارا رب کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘‘ (سورہ العلق 96:5-1)

گویا علم کی وہ تمام شاخیں اور قسمیں اور جہتیں جو انسان کو زمین پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہیں، آدم کو عطا کیں۔ مذکورہ بالا پانچ آیتوں میں واضح کردیا گیا کہ علم کا اصل ذریعہ اور منبع (Source) اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس لیے اسی کے نام سے پڑھنے کے لیے کہا گیا ہے اور اسی حوالے سے انسان کو بتایا گیا ہے کہ جو کچھ وہ نہیں جانتا تھا، اللہ نے اسے سکھایا۔ اس طرح وحی اور ہدایت الٰہی کے ذریعے علم کو انسان کے دل و دماغ میں مرتسم کردیا گیا… یہ جو فرمایا گیا کہ: اقرا باسم ربک الذی خلق (پڑھو اے نبی! اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا) تو اس آیت میں انسان کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ہر طلب کا آغاز اپنے رب کے نام سے کرنا چاہیے۔

علم کی ان تین جہتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور یہ تینوں درحقیقت علم کے تین ستونوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی نشان دہی حسبِ ذیل تین صفات کے ذریعے یا ان کی صورت میں کی گئی ہے:

1۔ خلق کا تعلق جہانِ طبعی (Physical World) سے ہے۔

2۔ علق کا تعلق جہانِ حیاتیاتی (Biological World) سے ہے۔

3۔ قلم کا تعلق جہانِ تکنیکی (Technical World) سے ہے۔

مذکورہ آیات میں علم کے ان تینوں جہانوں کو مربوط کردیا گیا ہے، اور ان سب کی مرکزیت اللہ اور اس کی فراہم کردہ ہدایت (الہدیٰ) سے قائم ہوتی ہے۔ اس طرح علم کا ایک ایسا مثالیہ (Paradigm) بنتا ہے جو اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے۔

اس کے ساتھ قرآن نے بتایا ہے کہ انسان کے اندر خیر و شر، تقویٰ اور فجور کی صلاحیت موجود ہے۔ اب یہ اس کا امتحان ہے کہ وہ ان دونوں کو استعمال کرکے خیر اور فلاح و تقویٰ کا راستہ اختیار کرتا ہے، یا شر اور فساد اور فجور کی طرف چلتا ہے۔ فرمایا:

(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی، یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔)) (سورۂ شمس 10-8:91)

یہی وجہ ہے کہ اصولِ فقہ میں حسبِ ذیل پانچ مقاصدِ شریعت متعین کردیے گئے ہیں:

1۔ دین کا تحفظ، 2۔ عقل کا تحفظ، 3۔ نفس اور جان کا تحفظ، 4۔ نسل کا تحفظ، 5۔ مال کا تحفظ

انہیں سامنے رکھ کر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں انسان کو اختیار، صلاحیت اور وسائل مہیا کیے گئے، وہاں اسے ہدایت کی نعمت سے بھی سرفراز فرمایا گیا ہے، کیونکہ یہ ہدایت تخلیقِ آدم کے وقت انسان کی اہم ضرورت تھی۔ یہ ہدایت چند دنوں یا کسی محدود وقت کے لیے نہ تھی، بلکہ ایک مسلمان کو روئے زمین پر زندگی گزارنے کے لیے قدم قدم پر اس کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہ انسانی ضرورت موجودہ نظامِ عالم کے آخری لمحے تک بدستور باقی رہے گی، اسی لیے وہ بار بار اپنے اللہ سے ہدایت طلب کرتا ہے: اہدنا الصراط المستقیم۔ اس کے جواب میں باری تعالیٰ نے ہدایت کے لیے انسان کو دو چیزیں عطا کیں:

1۔ رسولؐ، 2۔ کتاب

یہ دونوں چیزیں اسی ترتیب سے آپس میں مل کر ’ہدایت‘ بنتی ہیں۔

جہاں تک کتاب اللہ کا بطور ایک کتابِ ہدایت کے تعلق ہے، اس کے ذریعے اللہ نے انسان کو تین چیزیں عطا کیں:

1۔ تصورِ حیات عطا کیا، یعنی یہ کہ یہ زندگی ہے کیا؟ کیا یہ ایک بامعنی چیز ہے؟ یا محض بچوں کا کھیل ہے؟

2۔ مقصدِ حیات بھی عطا کیا، یعنی اگر زندگی کا کوئی مقصد ہے تو وہ کیا ہے؟ ظاہر ہے وہ اطاعتِ الٰہی ہے۔

3۔ قانونِ حیات بھی عطا کیا، یعنی یہ کہ اطاعت کا اظہار اس طرح ہوگا کہ اللہ کے احکام (اوامرونہی) پر عمل کیا جائے۔

یہ تینوں چیزیں زندگی کا ایک مکمل مرقع پیش کرتی ہیں، تاہم تصورات کی حد تک ان کی حیثیت فقط کتابی نوعیت کی ہے۔ اس مرحلے پر انسان کی فطری ضرورت ہے کہ اسے ایک ایسے نمونے (Model) سے روشناس کرایا جائے، جسے دیکھ کر وہ خود کو اس طرز پر ڈھال لے، اور سمجھ لے کہ یہی بہترین طریقِ ہدایت ہے۔

اگر صرف کتاب دینے پر اکتفا کیا جاتا تو کتاب کی تعبیر میں طرح طرح کی صورتیں رونما ہو سکتی تھیں جو خطرہ تھا کہ ہمیں کہیں سے کہیں پہنچا دیتیں، اس لیے ہمیں ایک مثالی انسان کی صورت میں ایک ماڈل عطا کیا گیا۔ ہدایتِ الٰہی میں عمل کے لیے جو راستہ بتایا گیا، وہ راستہ ہمیں نبیؐ کے اسوۂ حسنہ میں دکھا دیا گیا اور اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا ایک تعلق اور ایک رشتہ قائم کر دیا گیا۔ جب بھی یہ رشتہ کمزور ہو گا ہدایتِ الٰہی کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ اللہ تک پہنچنے کا راستہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی، راہ نما اور نمونہ تسلیم کرنے سے مل سکتا ہے اور یہی آپؐ کی اطاعت کا راستہ بھی ہے۔ اللہ نے نبیؐ کی سنت کے ذریعے ہدایت ِالٰہی کا ابدی انتظام قائم کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کو وحدہٗ لاشریک، اِلٰہ، رب، حاکم، مقصودِ حقیقی اور منتہا تسلیم کرنے کے بعد انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عملی اعتبار سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے رشتے کو استوار کرلے اور آپؐ کو ہی رہبر، ہادی، آقا اور پیشوا تسلیم کرے اور پھر ان کی ہدایت پر پوری طرح عمل پیرا ہو۔

قرآن حکیم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی ذمہ داریاں اور فرائض حسبِ ذیل بتائے ہیں:

1۔ تلاوت ِکتاب

2۔ کتاب کی روشنی میں تزکیۂ نفوس

3۔ تعلیمِ کتاب، جس میں کتاب کی تشریح اور اس کے تمام مقتضیات کی وضاحت شامل ہے۔

4۔ تعلیمِ حکمت، جس کے بے شمار پہلو ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ وہ حالات کے مطابق انسانی زندگی پر احکامِ الٰہی کی تطبیق کرسکے تاکہ ابدی ہدایت ہر زمانے اور ہر دور میں زندگی کا نقشہ مرتب کرنے کا ذریعہ بنے۔

5۔ دینِ حق کا قیام: دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام کاوشوں کا ایک منتہائے مقصود تھا، فرمایا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے۔‘‘ (سورۂ فتح 28:48)

اور یہ بالکل واضح ہے کہ اس دینِ حق کے قیام کا ہدف انسانی زندگی کے ہر دائرے میں عدل و انصاف اور توازن کا قیام ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایت کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘  (سورۂ حدید 25:57)

دوسری طرف قرآن حکیم کے مطابق نبیؐ پر ایمان اور ان کی اطاعت کی بنیادیں حسب ِذیل ہیں:

1۔ یہ کہ نبیؐ پر ایمان لاکر انہیں رسول مانا جائے۔

2۔ نبیؐ کو واجب الاطاعت تسلیم کیا جائے۔

3۔ نبیؐ سے اخلاقی، روحانی، ہمہ پہلو محبت کا ایسا دلی تعلق قائم کیا جائے جو تمام محبتوں سے بالاتر ہو، حتیٰ کہ یہ تعلق ماں باپ اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں سے بھی زیادہ گہرا اور مضبوط اور مستحکم ہو۔

4۔ اپنے تمام افعال و اعمال، اور اپنی تمام سرگرمیوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے۔

5۔ اطاعت کا ایک پہلو جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، وہ ان کا اتباع ہے، یعنی صرف اطاعت ہی نہیں بلکہ آپؐ کے نمونے کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ڈھالنا۔

یہ ہیں وہ پانچ محکم ستون جن پر اسلام چاہتا ہے کہ انسانی زندگی استوار اور قائم ہو۔ نبیؐ کا ہر کام لائقِ اتباع ہے، اس لیے جو ان کا مقصدِ وحید تھا یعنی شہادتِ حق اور اقامتِ دین کے لیے جہاد فی سبیل اللہ، تو نبیؐ کے ہر نام لیوا کے لیے اسی مقصد کو اپنانا فرضِ عین ہے۔ اور یہی وہ سنتِ کبریٰ ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کے متعلق تمام سنتوں کا مجموعہ اور حاصل ہے۔

یہ سب کچھ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک ہمیں نبیؐ کی سیرت کا علم نہ ہو۔ یہ اللہ پاک کا احسان ہے کہ اس نے قرآن حکیم میں نبیؐ کی پوری سیرت، ایک مکمل اور مفصل تصویر کی شکل میں محفوظ کردی ہے۔ قرآن حکیم میں دیگر انبیا علیہم السلام کا ذکر بھی ملتا ہے، لیکن یہ ذکر ان کی رسالت کی زندگی تک محدود ہے۔ آپؐ کی انفرادیت یہ ہے کہ نہ صرف دورِ رسالت بلکہ بعثتِ رسالت سے ماقبل کی زندگی کا احوال بھی قرآن حکیم میں محفوظ ہے۔

سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جاننے کے مآخذ تین ہیں: قرآن، حدیث اور کتبِ تاریخ و سِیَر۔ ان تینوں کے ذریعے سیرتِ رسول کی شکل میں ہمیں ہدایت کا ایک مکمل نظام ملتا ہے۔

مسلمانوں کے علمی کارنامے متنوع ہیں، انہوں نے فقہ کا بہت بڑا ذخیرہ مدون کیا، اسی طرح علم الکلام کا ایک محیرالعقول سلسلہ بھی قائم کیا، پھر قرآن حکیم کی تفسیر اور توضیح میں بھی بڑی محنت کی۔ لیکن مسلم محققین نے تفسیر قرآن کے بعد سب سے زیادہ توجہ سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دی ہے اور سب سے زیادہ محنت بھی فنِ سیرت نگاری ہی میں نظر آتی ہے۔ کرۂ ارض پر ایسا کوئی اور انسان نہیں ہے جس کی زندگی کے حالات اس قدر تفصیل سے میسر ہوں، جتنی تفصیل سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات ملتے ہیں۔ بلا تامل کہا جاسکتا ہے کہ کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کی راہ نمائی کے لیے سیرتِ رسولؐ ایک بہترین اسوۂ ہدایت ہے۔

[سیرت سرورِ عالم، جلد سوم ص 21 تا 25]