April 26th, 2024 (1445شوال17)

پروفیسر غفور احمد۔۔۔ دسمبر کا زخم

تحریر: میاں منیر احمد


دسمبر پاکستان کی تاریخ کا بہت تلخ مہینہ ہے‘ سقوط ڈھاکا دسمبر میں ہی ہوا‘ یہ زخم کیا کم گہرا تھا کہ اس قوم کو دسمبر کے مہینے میں ہی ملکی سیاست کے ایک درخشندہ ستارے پروفیسر غفور احمد کی رحلت کا غم بھی سہنا پڑا‘ کچھ لوگ اور شخصیات واقعی حقیقی معنوں میں نایاب اور انمول ہوتی ہیں‘ جو کسی کا خواب بھی ہوتی ہیں اور کسی کے لیے زندگی کا ماڈل بھی‘ پروفیسر غفور احمد پاکستان کے لیے سوچنے‘ اسلام پر مرمٹنے اور تاج دار مدینہ کی لاج کے رکھوالے بھی تھے اور ایسے لوگوں کے لیے ماڈل بھی‘ وہ 1927 میں پیدا ہوئے اور دسمبر 2012 میں اپنا شاندار کردار ادا کرنے کے بعد اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے‘ لکھنؤیونیورسٹی سے ایم کام کیا‘ اور سیاست میں آئے تو پہلی بار 1958 میں کراچی میونسپلٹی کے رکن منتخب ہوئے‘ 1970 میں کراچی سے مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کے لیے رکن منتخب ہوئے‘ 2002 میں انہیں مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے جماعت اسلامی میں رہتے ہوئے اپنا امیدوار نامزد کیا اور سینیٹر بنوایا جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے تو آخری دم تک اسی ہراول دستے کے ساتھ رہے سیاسی لحاظ سے ملک کے لیے ان کی بے شمار اور ان گنت خدمات ہیں۔ 1973 کے دستور میں اسلامی دفعات شامل کرانا اور ولی خان جیسے رہنماؤں سے بھی اس کی تائید حاصل کرنا‘ پروفیسر غفور احمد کا ہی کمال تھا‘ بھٹو کے خلاف انتخابات میں جب پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل ہوئی تو اس کے مرکزی رہنماؤں میں شامل ہوئے اور پیر محمد اشرف کے استعفے کے بعد پاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے‘ اسلامی جمہوری اتحاد کے بھی سیکرٹری جنرل رہے ‘ بھٹو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھی انہیں نواب زادہ نصراللہ خان‘ مفتی محمود کے ساتھ 3 رکنی ٹیم میں شامل کیا گیا بھٹو کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے امین تھے اور اپنی کتاب میں اس کا احوال بیان کرچکے ہیں‘ بہت ہی عمدہ سیاسی کارکن تھے اور بھٹو کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے موضوع پر اپنی کتاب میں انہوں نے اپنی تحریر سے ثابت کیا انہیں نرم الفاظ میں سخت بات کرنے اور لکھنے کا سلیقہ اور فن بھی آتا ہے‘ جس سیاسی کارکن نے ان کی لکھی ہوئی کتاب مطالعہ نہیں کی اپنی کتاب میں ملکی سیاسی حالات پر وہ بن آواز روئے ہیں ان کی کتاب کے ہر صفحے کی کہانی یہ ہے کہ

جند ھوکے تے ہاواں بھردی اے
ہرویلے یاد تینوں اے کردی اے

ضیاء دور میں کابینہ میں شامل ہوئے اور وزارت پیداوار کا قلم دان سنبھالا‘ خوب کام کیا مگر خود لیں اور نہ کسی کو ناجائز مراعات دیں‘ جماعت اسلامی نے انہیں کابینہ میں بھیجا تھا‘ جماعت اسلامی نے واپس آنے کے لیے کہا تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اطاعت کرتے ہوئے وزارت کا منصب چھوڑ دیا‘ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اگرچہ دائیں بازو والے سیاسی کیمپ کے لوگ مطمئن تھے کہ بھٹو دور سے نجات ملی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ بھٹو کے مقابلے میں ضیاء کا دور ان کے لیے میٹھی چھری ثابت ہوا ضیاء الحق نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جہاں کچھ اقدامات اٹھائے وہیں دینی جماعتوں کو نقصان بھی پہنچایا‘ ان کا سیاسی اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے انہیں توڑنے کی کوشش بھی کی‘ پروفیسر غفور احمد سے ان کو توقع تھی کہ وہ جماعت اسلامی میں الگ گروپ بنائیں ایک بار تو گورنر فضل حق نے اس کا اظہار بھی کیا لیکن انہیں ایسا منہ توڑ جواب ملا کہ دوبارہ ضیاء الحق حکومت کے کسی عہدیدار کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ پروفیسر غفور احمد سے اس طرح کی بات کرے انہوں نے اپنے کھلے شفاف اور بے داغ سیاسی کردار سے یہ ثابت کیا کہ وہ دیوار کے اس پار ہوں یا اس پار‘ دونوں جگہ ایک ہی کردار رکھتے ہیں آج کے سیاسی رہنماؤں کی طرح نہیں کہ اندھیرے میں ملاقاتیں کرتے ہیں اور اجالے میں عوام کی بات کرتے ہیں پروفیسر غفور احمد کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جماعت اسلامی کا ہر کارکن اس بات کا جائزہ لے کہ وہ کیوں پروفیسر غفور احمد نہیں بن سکا‘ مطالعہ کی عادت اور کام کرنے کی پختہ منصوبہ بندی ان کی زندگی کا خاصا رہی ہے وہ اس قدر کام کرتے تھے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کی نواسی محترمہ کا ایک آرٹیکل پڑھا کہ وہ مسلسل کام کرنے کی وجہ سے انہیں قائد اعظم سمجھتی تھیں بلاشبہ وہ قائد تھے‘ ہمت والے تھے‘ بہادر تھے اور وہ کچرا چننے والے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے بھی سوچتے تھے نونہالوں کو، مستقبل کا معمار سمجھتے تھے وہ اس ماحول اور سماج کے خلاف تھے جو سماج اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے وہ کھرے پن اور اپنے اجلے کردار کے باعث سیاسی کارکن تو تھے ہی لیکن اصل میں اسلام کے سپاہی اور ندائے پاکستان تھے اقبال سے ان کو عشق تھا اور اقبال کے کلام کے حقیقی پیغام کو وہ سمجھتے تھے ؂

وہ عالم سے بیگانہ کرتی ہے دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

ان کے اہل خانہ اور ان کی اولاد آج بھی اس بات پر فخر کرتی ہے کہ انہیں اللہ تعالی نے ان جیسا والد عطا کیا جب وہ کبھی اندرون ملک یا بیرون ملک دوروں کے بعد گھر پہنچتے تو ان کے بچے انہیں گھیر کر بیٹھ جاتے‘ وہ بچوں کے ساتھ بہت پیار کرتے تھے جماعت اسلامی کو ایک عوامی مگر دینی اقدار کی بنیاد پر مقبول جماعت بنانا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ جماعت اسلامی کو اخلاقی معیار کی ایک قوت بننا چاہیے اور سیاسی کامیابی اصل ہدف نہیں ہونا چاہیے ان کی جدوجہد نصف صدی پر محیط ہے وہ ملک کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرکے ایک فلاحی اسلامی ریاست کا مرکز وفاق اور شریعت کا نفاذ چاہتے تھے ان کا ایجنڈا تھا کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ اور دیگر اکابرین کے وژن کے مطابق اخلاقی روحانی تربیت کریں وہ سیاسی طور پر جماعت اسلامی کو ملک کی سب سے بڑی جماعت بنانا چاہتے تھے ان کا ہر لمحہ، ہر سانس پاکستان اور اسلام کی محبت کے لیے تھا۔ محروم طبقات کو تقویت دینے کے لیے اپنا ہر لمحہ صرف کرتے تھے وہ ہر ایک کا خیال رکھتے تھے۔ معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے تھے اقلیتوں کے بھی ترجمان بن گئے تھے ان کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔ وہ اُمت مسلمہ کے سر کا تاج اور ماتھے کا جھومر تھے۔ وہ بلند نگاہ، دلنواز سخن اور پرسوز جان رکھتے تھے۔ وہ اتحادِ اُمت کے حقیقی معنوں میں علم بردار تھے۔

کیا تونے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں، اذان سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہی کے جگر میں