April 20th, 2024 (1445شوال11)

پروفیسر غفور احمد

قاضی حسین احمد کی یادگار تحریر جس کے چند دن کے بعد ۶ جنوری ۲۰۱۳ کو آپ رحلت فرماگئے تھے۔

قاضی حسین احمد

ہماری قومی سیاست کے افق پر 1970 کے عشرے میں پروفیسر غفور احمد ایک چمکتے ہوئے روشن ستارے کے طور پر ابھرے۔ جنرل محمد ایوب خان کی فوجی آمریت کے خلاف مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے بھرپور مہم کا آغاز کیا۔ہر مکتبہ فکر کے علماء کے ساتھ مل کر دستوری سفارشات مرتب کیں اور فوجی مداخلت اور مارشل لاء کے خلاف چارج شیٹ تیار کر کے ملک بھر میں مہم کا آغاز کیا۔ ایوب خان کے مارشل لاء میں دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح جماعت اسلامی پر بھی پاپندی لگا دی گئی۔ جب جنرل ایوب خان کے بنائے ہوئے دستور کے مطابق سیاسی جماعتوں پر سے پابندی اٹھائی گئی تو جماعت اسلامی نے بھی بھرپور سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو جنرل محمد ایوب خان کے وزیر خارجہ تھے۔ اسی عرصے میں جماعت اسلامی پاکستان کے کُل پاکستان اجتماع عام کے دوران افراتفری پیدا کرنے کے لیے گولی چلائی گئی جس میں جماعت اسلامی کا ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوگیا۔ سیاسی اجتماعات میں افرا تفری پھیلانے کی کوششوں کا آغاز یہیں سے ہوا۔ جماعت اسلامی پر ایک بار پھر پابندی لگا کر اسے خلاف قانون قرار دے دیا گیا اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سمیت اس کی پوری قیادت کو جیل میں ڈال دیا گیا۔پروفیسر غفور احمد صاحب اس دوران جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے ممبر ہونے کی بنا پر قید کردیے گئے۔1970 میں یحییٰ خان کے مارشل لاء میں جو انتخابات کرائے گئے ان میں کراچی سے پروفیسر غفور احمد صاحب ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی چار رکنی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر چُنے گئے۔ اس عرصے میں پروفیسر غفور احمد کے جوہر نمایاں ہوئے اور ایک چھوٹے سے گروپ کے لیڈر ہونے کے باوجود انہوں نے دستور پاکستان کی تشکیل میں نمایاُں کردار ادا کیا اور قوم کو 1973 کے متفقہ دستور کا تحفہ عطا کرنے میں حکمران اور اپوزیشن کے افراد میں ان کا نام دو چار اولین ممتاز رہنماؤں میں شامل ہے۔

دستور کی بنیادی نمایاں خصوصیات میں
(i) اس کی اسلامی دفعات جس کی وجہ سے یہ سیکولر، لبرل یا سوشلسٹ جمہوریہ کی بجائے اسلامی جمہوریہ کہلایا۔ 
(ii) اس کا جمہوری ہونا جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش کے باوجود یہ صدارتی کی بجائے ایک وفاقی پارلیمانی جمہوری دستور بنا۔ 
(iii) اس کا فلاحی ریاست ہونا جس کی بنا پر باشندوں کی بنیادی ضروریات خوراک، لباس، بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولتیں مہیا کرنا ریاست کا فرض ہے۔ 
(iv)  اس کا وفاقی ہونا جس میں صوبوں کو قومی استحکام اور یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے صوبائی خود مختاری حاصل ہے۔ 
(v) عدلیہ کی انتظامیہ سے آزادی اور دستور کی تعبیر میں عدلیہ کی بالادستی شامل ہیں۔

دستور پاکستان میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ نظریہ پاکستان یعنی اسلام کو دستوری تحفظ دیا جائے اس کیلئے پاکستان کے بنانے والوں کے اولین قائدین کے پاس کردہ قرار داد مقاصد کو دستور کا دیباچہ اور اس کی بنیاد کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ مرکز اور صوبوں کے اختیارات میں توازن پیدا کر کے صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل کیا گیا۔ عدلیہ کی آزادی کو تسلیم کیا گیا ملک کو فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کر کے سرمایہ داری کی بجائے اسلام کے عدل اجتماعی کو ملک کی معیشت کے نظام کے طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں ایک ایسا متوازن دستور بنایا گیا جس کے نتیجے میں ملک کے تمام طبقوں کو ایک مشترک بنیاد پر اکٹھا کیا گیا۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ ان تمام قائدین کو حاصل ہے جو اس وقت پارلیمنٹ کے ممبر تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد قوم کو جس قومی مفاہمت کی ضرورت تھی اس دستور کے نتیجے میں مفاہمت کا وہ فارمولا طے ہوگیا لیکن اسکی ان بنیادی خصوصیات کو طے کرنے میں پروفیسر غفور احمد صاحب کے علم، محنت، صلح کل شخصیت، متحمل اور بردبار مزاج کا بڑا دخل تھا۔ جن دنوں وہ پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر تھے ان دنوں میرے اوپر جماعت اسلامی کے پشاور شہر کے امیر کی ذمہ داری تھی۔ میں جب بھی انہیں ملنے کے لئے اسلام آباد آیا ہوں انہیں اپنے کمرے میں میز کرسی لگا کر پارلیمنٹ کے اجلاس کے لئے تیاری میں مصروف پایا ہے۔ قانون سازی، لوگوں کے مسائل کو پارلیمنٹ میں اُٹھانا اور اہم قومی مسائل پر بحث کیلئے تیار ہوکر اسمبلی میں جانا ان کا معمول تھا۔ اس لحاظ سے ان کا نام ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ایک کامیاب ترین پارلیمنٹیرین کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اپنے آمرانہ مزاج کی وجہ سے پارلیمنٹ کے مشوروں کو کم اہمیت دی ہے اور اسی وجہ سے بہت جلد مشکلات کا شکار ہوگئے اگر وہ دستور سازی کی طرح تمام اہم قومی مسائل میں لوگوں کو ساتھ لے کر چلتے تو یقیناً ملک و قوم کے لیے ایک نعمت ثابت ہوتے لیکن انہوں نے نہ صرف اپوزیشن بلکہ خود اپنی پارٹی میں بھی اختلاف کو برداشت نہیں کیا اور ایک مرتبہ ڈنڈا ڈولی کر کے مولانا مفتی محمود جیسی قابل احترام شخصیت کو پارلیمنٹ سے باہر پھینک دیا۔ احمد رضا قصوری کی گستاخی پر ان کی کار پر فائرنگ کروا کر انکے والد کو قتل کروا دیا جس کے نتیجے میں انہیں سزائے موت ہوئی اور قومی سیاسی زندگی میں ایک دراڑ پڑ گئی۔ ولی خان پر گولی چلائی گئی جس کے نتیجے میں ان کا ڈرائیور قتل ہو گیا۔ میاں طفیل محمد صاحب جیسی جیسی متورع اور اللہ والے بندے پر جیل میں تشدد کرایا گیا۔ سینکڑوں کارکنوں کو شاہی قلعہ لاہور میں ناقابل بیان اذیتیں دی گئیں۔ اس عہد میں پروفیسر غفور احمد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جمہوری آزادیوں اور بنیادی حقوق کی جنگ لڑتے رہے۔ اپوزیشن نے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے ان دنوں پاکستان نیشنل الائنس PNA کے نام سے اتحاد قائم کیا۔ مولانا مفتی محمود صاحب اس اتحاد کے صدر اور پروفیسر غفور احمد صاحب اسکے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ ممتاز دینی اور سیاسی رہنما مولانا شاہ احمد نورانی( مرحوم)، پیر صاحب پگاڑا، بیگم نسیم ولی خان اور اصغر خان اس اتحاد کے ممتاز رہنما تھے اور نظام مصطفی کی تحریک کے نام سے اس اتحاد نے ایک تاریخی جدوجہد کی۔ پروفیسر غفور احمد صاحب اس تحریک کا ثمر حاصل کرنے کیلئے بھٹو صاحب مرحوم کے ساتھ سیاسی گفت و شنید کو ایک جمہوری نتیجے تک پہنچانا چاہتے تھے لیکن یہ تحریک سازشوں کا شکار ہوگئی اور خود جناب ذوالفقار علی بھٹو عین موقع پر مذاکرات کو منطقی نتیجہ تک پہنچانے کی بجائے دبئی چلے گئے وہ اتحاد کو توڑنے یا کچلنے کیلئے پینترے بدل بدل کر چال چلنا چاہتے تھے جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق مرحوم مداخلت کرنے اور اور مارشل لاء لگا کر نظام مصطفی نافذ کرنے کے بہانے طویل آمریت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پروفیسر غفور احمد بادل ناخواستہ اس دور میں نو ماہ تک وزیر پیداوار رہے کیونکہ ایک مجلس میں جنرل ضیاء الحق کے مشیروں جن میں جنرل کے ایم عارف، جنرل راؤ فرمان علی اور غلام اسحاق خان شامل تھے ہمیں یقین دلایا کہ ہم مارشل لاء ہٹانا چاہتے ہیں لیکن مارشل لاء کو سویلین حکومت میں ٹرانسفارم کرنے کے لئے ہمیں قومی اتحاد کی جماعتوں کے تعاون کی ضرورت ہے جس پر قومی اتحاد کی تمام جماعتوں نے حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ سب سے پہلے مسلم لیگ شامل ہوئی اس کے بعد جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور نواب زادہ نصر اللہ خان کی PDP بھی شامل ہوئی اس دوران میں جنرل ضیاء الحق نے الیکشن کا اعلان کیا۔ پروفیسر غفور احمد سمیت ہمارے وزراء نے الیکشن کی تیاری کیلئے حکومت سے علیحدگی اختیار کی لیکن اس کے فوراً بعد جنرل ضیاء الحق الیکشن کے وعدے سے پھر گئے اور دس سال تک بلا شرکت غیرے یکطرفہ طور پر فوج کے سہارے آمرانہ حکومت چلاتے رہے۔ اس پورے عرصے میں پروفیسر غفور احمد مسلسل فوجی مداخلت کے خلافت آواز اُٹھاتے رہے اور جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کی کاروائیاں اور مرکزی شوریٰ کی قرار دادیں اس پر گواہ ہیں کہ جماعت اسلامی نے کبھی ایک دن کیلئے بھی ضیاء الحق کے آمرانہ نظام کو قبول نہیں کیا اور مسلسل بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 1973ء کے دستور کے مطابق انتخابات کرانے کیلئے آواز اُٹھاتی رہی۔ پروفیسر غفور احمد ایک فقیر منش سادہ اطوار کے حامل شخصیت کے مالک تھے کراچی کے بدترین حالات میں بھی انہوں نے اپنے لئے حفاظتی انتظامات قبول نہیں کئے۔ پانچ وقت کی نمازوں کیلئے پیدل مسجد میں جاتے رہے۔ رات کے اندھیروں میں بھی فجر اور عشاء کی نماز باجماعت بلا عذر نہیں چھوڑی۔ میں نے کراچی میں ان کے مکان کے ایک کمرے میں راتیں بسر کی ہیں اور لاہور میں جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کے مہمان خانے کے ایک کمرے میں اکٹھے رہے ہیں۔ سادگی کے ساتھ سلیقہ اور ترتیب ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ کمرے کے اندر ہر چیز کو سلیقے سے مرتب کر کے اپنی متعین جگہ پر رکھنا ان کی عادت تھی۔ہلکے پھلکے اور چست چاق و چوبند بزرگ تھے۔ اردو اور انگریزی میں ڈرافٹنگ کے ماہر تھے اور جماعت اسلامی کی اکثر سیاسی قرار دادیں انہو ں نے مرتب کی ہیں۔ قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل بھی رہے اور عمر کے آخری حصے میں تین سال تک سینیٹ کے ممبر بھی رہے۔ 16سال کی عمر میں جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوئے اور 85 سال کی عمر تک ثابت قدمی سے ساتھ نبھاتے رہے۔ عمر اور تجربے میں بڑا ہونے کے سبب جماعت کا امیر ہونے کے باوجود میں نے ایک بزرگ رہنما کے طور پر ہمیشہ ان کی قدر کی ہے اور ان کے مشوروں پر عمل درآمد کیا ہے۔ وہ ایک شفیق بڑے بھائی کی طرح جماعت کے حلقوں میں محبوبیت رکھتے تھے ان کی شیریں یادیں ہمیشہ دلوں میں تازہ رہیں گی۔ انہوں نے اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے ساری عمر طویل اور انتھک جدوجہد کی ہے ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ ان کا رب ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرے گا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ ھل جزاء الاحسان الا الاحسان ۔ کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور ہو سکتا ہے۔