April 19th, 2024 (1445شوال10)

ماہ محرم کی فضیلت اور مسنون اعمال

از قلم: شیخ مقصود الحسن فیضی

الحمد للہ وحدہ و الصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ۔ وبعد

اللہ تبارک و تعالی نے اپنی حکمت و عدل سے بعض ایام کو بعض ایام پر، بعض مہینوں کو بعض مہینوں اور بعض اوقات کہ بعض اوقات پر فضیلت بخشی ہے، اور تقریباََ ہر فضیلت والے مہینے، وقت اور دن میں کچھ نیک کام مشروع قرار دیے ہیں، ان میں گناہ کے کام سے روکا اور اپنی اور اپنے رسول کی نافرمانی کو زیادہ قابل مذمت بتلایا ہے۔

انہیں افضل و محترم مہینوں میں ایک مہینہ محرم اور انہیں مبارک دنوں میں ایک دن عاشورہ کا بھی ہے۔

محرم الحرام کی فضیلت:

محرم الحرم کو اللہ تعالیٰ نے متعدد فضائل سے نوازا ہے:

[۱] اس کی سب سے پہلی فضیلت و اہمیت یہ ہے کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینہ سے ہوئی ہے، جیسا کہ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔

[۲] یہ مہینہ سال کے چار محترم اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

[إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ القَيِّمُ] {التوبة:36}

مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے، ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں یہی درست دین ہے‘‘۔

حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ: اب زمانہ گھوم گھما کر پھر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی، سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں تین پے درپے ہیں، ذوالقعدہ، ذو الحج اور محرم اور چوتھا رجب مضر ہے جو جمادی الاوّلی اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔

{ صحیح البخاری: 4662، التفسیر – صحیح مسلم : 1679، القسامہ}

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار مہینوں کو خاص کرلیا اور انہیں حرمت والے قرار دیا، نیز ان کی عزت و حرمت کو بڑھایا اور ان میں اپنی نافرمانی کو قبیح قرار دیا، اسی طرح ان مہینوں میں عمل صالح کے اجر و ثواب کو بڑھا دیا۔

{ شعب الایمان :5/ 341 }

[۳] اس مہینہ میں روزہ رکھنا اور مہینوں کے مقابل میں افضل ہے۔

چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینے محرم کا ہے اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔

{ صحیح مسلم :1202، الصوم – سنن ابوداود :2429، الصوم – سنن الترمذی :740 ، الصوم ، بروایت ابو ہریرہ }۔

سنن النسائی الکبری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزہ کون سا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ کے اس مہینے کا روزہ جسے تم محرم کے نام سے یاد کرتے ہو۔

{ سنن النسائی الکبری: 2906، ج:2/ 171} ۔

[۴] اس مہینے کی نسبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے یعنی ”اللہ تعالیٰ کا مہینہ‘‘ حالانکہ سارے مہینے ہی اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اور متعین کردہ ہیں، لیکن اس ماہ کی اہمیت کے پیش نظر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت و اضافت اللہ تعالیٰ کے طرف کی، جیسا کہ پچھلی دو حدیثوں سے واضح ہوا، اور ظاہر ہے کہ جن چیزوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے وہ قابل احترام اور افضل ہوتے ہیں جیسے بیت اللہ، کعبۃ اللہ وغیرہ۔

[۵] اس مہینے میں عاشورہ کا دن ہے جس کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”جس نے عرفہ کے دن کا روزہ رکھا اس کے ایک سال آئندہ اور ایک سال گزشتہ کے گناہ معاف کردیے گئے اور جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اس کے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف کردیے گئے۔

{ صحیح مسلم : 1162 ، الصوم – سنن الترمذی :752 ، الصوم ، بروایت ابو ہریرہ}

اس مہینے کے مسنون کام :

اس مہینہ کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر اس میں کچھ ایسے کام مشروع ہیں جو اگرچہ دوسرے مہینوں بھی مشروع ہیں لیکن اس مبارک مہینہ میں ان کی اہمیت زیادہ ہے وہ کام یہ ہیں:

[۱] روزہ:

محرم الحرام کے روزہ کے متعلق دو حدیثیں گزرچکی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ نفل روزوں میں سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں۔

ماہ محرم میں روزہ رکھنے کی فضیلت کی وجہ:

علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت کی دو وجوہات ہیں:

[الف] چونکہ یہ مہینہ حرمت والا مہینہ ہونے کی وجہ سے مبارک ہے اور روزہ بھی اللہ کے نزدیک بڑا محبوب عمل ہے، لہٰذا مبارک دن میں محبوب عمل کی ترغیب دی گئی، اس لئے کہ وقت، جگہ اور حالت کے اختلاط کے پیش نظر نیک عمل کی اہمیت و فضیلت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

[ب] یہ سال کا پہلا مہینہ ہے اور شریعت نے کسی چیز کے ابتداء و انتہا میں نیک عمل کی ترغیب دی ہے، جیسے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: [وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ(114) ]. {هود}.

اور دن کے دونوں سروں میں نماز قائم کرو اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقینآٓ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے‘‘۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں میں بھی صبح و شام ذکر الٰہی پر خصوصی طور پر ابھارا گیا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص سورج کے طلوع ہونے اور سورج کے غروب ہونے سے قبل نماز پڑھے گا وہ ہرگز ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔

{ صحیح مسلم : 634، المساجد – سنن ابوداود :427 ، الصلاۃ ، بروایت عمارہ}

ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! دن کے ابتدائی حصّے میں میری رضا کے لئے چار رکعت سے عاجز نہ رہ جس کی وجہ آخری حصّے تک میں تیرے لئے کافی رہوں گا۔

{ سنن ابو داود :1289، الصلاۃ – مسند احمد :286/5 ، عن نعیم بن معمار الغطفانی}

یہی وجہ ہے آپ دیکھیں گے کہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ اور آخری مہینہ دونوں حرمت والے ہیں اور دونوں میں نیک اعمال کی خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم۔

[۲] گناہوں سے پرہیز:

اس مبارک مہینہ کا دوسرا خصوصی عمل یہ ہے کہ بندے کو چاہیے کہ عبادت کے کاموں اور دیگر نیک کاموں میں دلچسپی لے اور گناہ کے کام سے خصوصی طور پر پرہیز کرے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

[فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ] {التوبة:36}

ان مہینوں میں {حرمت والے مہینوں میں} تم لوگ اپنے اوپر ظلم نہ کرو‘‘۔

اس جملے کی تفسیر کرتے ہوئے امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ”یعنی قتال کرکے یا گناہ کا کام کرکے اپنے اوپر ظلم نہ کرو، کیونکہ ان مہینوں میں گناہ کرنا اور مہینوں کے مقابلے میں زیادہ برا ہے، جس طرح کہ حرم میں گناہ دوسری جگہوں کے مقابلے زیادہ برا ہے“۔ تفسیر ابن کثیر

[۳] توبہ و استغفار:

چونکہ اس ماہ میں کثرت سے روزہ رکھنا مشروع ہے نیز اپنے خالق و مربی کی نافرمانی سے پرہیز بڑی اہم نیکی ہے لٰہذا اگر کوئی بندہ ٴمومن ان دونوں کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرتا ہے تو قوی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا، اس سلسلے میں مسند احمد وغیرہ میں ایک حدیث مروی ہے جسے امام ترمذی اور حافظ منذریؒ وغیرہ حسن قرار دیتے ہیں، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ رمضان المبارک کے بعد وہ کونسا مہینہ ہے جس میں روزہ رکھنے کا ہمیں آپ مشورہ دیتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے اس سے فرمایا: ایک دن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے آپ سے یہی سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: اگر تم رمضان المبارک کے بعد کسی مہینہ کا روزہ رکھنا چاہتے ہو تو ماہ محرم کا روزہ رکھو، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی ہے اور دوسری قوموں کی توبہ بھی قبول فرمائے گا۔

{ مسند احمد :1/154 – سنن الترمذی : 741 ، الصوم}

[۴] اتفاق واتحاد:

اشہر حرم کے ضمن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: [وَقَاتِلُوا المُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ مَعَ المُتَّقِينَ] {التوبة:36}

اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح کہ وہ تم سے مل کر لڑتے ہیں اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے‘‘۔

یعنی جس طرح کہ وہ متفق متحد ہو کر تم سے لڑتے ہیں اس طرح تمہیں بھی چاہیے کہ تم ان سے متفق و متحد ہو کر لڑو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد آپس میں نا اتفاقی، ایک دوسرے کی دشمنی اور ایک دوسرے سے بغض و نفرت سے نہیں بلکہ آپسی اتفاق و اتحاد اور آپسی محبت و مودت سے حاصل ہوسکتی ہے۔

[۵] توکل:

محرم کا مہینہ آتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر چھڑ جاتا ہے کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو ظالموں کے چنگل سے نجات دی اور جب ایک شخص موسیٰ علیہ السلام کے اس موقف پر ایک نظر ڈالتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو لے کر رات و رات فرعون کی پکڑ سے بچنےکے لیے سرزمین مصر سے کہیں دور نکل جانا چاہتے ہیں لیکن ابھی فرعون کی حکومت کے حدود ہی میں ہیں کہ وہ اپنے پورے لشکر کے ساتھ سمندر کے کنارے انہیں پالیتا ہے، بنو اسرائیل چیخ پڑتے ہیں کہ اب تو ہم مارے گئے، سامنے سمندر ہے اور پیچھے سے فرعون اور اس کا لشکر بالکل قریب پہنچ چکے ہیں، لیکن ایسے مشکل وقت میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے ایک ایمان بھرا جواب دیا کہ: ”کلا ان معی ربی سیھدین‘‘ {الشعراء:62 } ہرگز نہیں، یقین مانو! میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راہ دکھائے گا۔

ہوا بھی ایسا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ موسیٰ! ابھی چھڑی اس سمندر میں مارو، تمہارے لئے ایک راستہ نہیں بارہ راستے بن جائیں گے۔

یہ ہے اس مبارک مہینے کی شرعی حیثیت جسے بالائے طاق رکھ کر عام مسلمانوں نے اسے شرک و بدعات کا مہینہ ٹھہرا لیا ہے، اور بہت سے سادہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ماہ محرم منحوس ہے جس میں شادی و بیاہ اور کوئی کاروبار شروع نہیں کرنا چاہیے، اور کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینہ کو جو اہمیت ملی ہے اس کی وجہ حادثہ کربلا ہے۔ نعوذ باللہ۔