April 16th, 2024 (1445شوال7)

حسینیت کا درس

آج یوم عاشور ہے اور سب کو یہی فکرہے کہ خدا کرے یہ دن عافیت سے گزر جائے۔ اب تک کچھ چھوٹے موٹے واقعات تو ہوئے ہیں مگر انتظامیہ چوکس ہے۔ مگر کیا یہ لمحہ فکر نہیں کہ شہداءکربلا کی یاد ایسے ماحول میں منائی جاتی ہے کہ قدم قدم پر پولیس ‘ رینجرز اور فوج تعینات ہو اور ہر دم یہ خدشہ رہے کہ کہیں کوئی فساد نہ ہوجائے۔ حضرت حسینؓ اور اہل بیت اطہار تو ہر مسلمان کے لیے محترم تھے اور ہیں۔ کربلا میں ان کی بے بسی اور بے کسی سے شہادت ہر مسلمان کے لیے باعث رنج و غم ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سانحہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ ہر سال چند دن کے لیے ان مقدس ہستیوں کی یاد منائی جاتی ہے۔ سینہ کوبی کی جاتی ہے‘ چھریوں کا ماتم ہوتا ہے‘دہکتے انگاروں پر چل کر دکھایا جاتا ہے اور بس۔ کیا اسوہ_¿ شبیری یہی ہی؟ کیا کربلا کا پیغام اتنا ہی ہی؟عزاداران حسین ایک لمحہ کو یہ ضرور سوچیں کہ ہم ان دنوں جو کچھ کرتے ہیں کیا وہ حضرت حسینؓ کو پسند آئے گا؟ کیا ان کی عظیم قربانی کا مقصد صر ف یہ تھا کہ ہر سال ان کی یاد میں جلوس نکالے جائیں اور سینہ کوبی کی جائے ۔ کیا ایساکرکے ہم شہداءکربلا کے اصل مقصد سے انحراف نہیں کررہی؟ حضرت حسینؓ وقت کے ایک ایسے حاکم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے جو ان کے نزدیک مسلمانوں کی امامت اور خلافت کا اہل نہیں تھا۔ رسول اللہ کی وفات کے صرف چند برس بعد معاشرے میں خرابیاں پیدا ہونے لگی تھیں‘ بیت المال کو ذاتی جاگیر بنالیا گیا تھا اور ملوکیت کا بیج بودیا گیا تھا۔ آپؓ کی بصیرت دیکھ رہی تھی کہ مسلمانوں کی اکثریت ہر چند کہ احکام الٰہی کی پیروکار ہے‘ عدالتوں میں فیصلے بھی شریعت کے مطابق ہورہے ہیں لیکن اگر حاکم وقت راہ سے بھٹک جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوتے ہیں اور فوری طور پر خواہ ظاہر نہ ہوں لیکن کسی کانٹوں بھرے درخت کے اس بیج کی مانند ہوتے ہیں جو جڑ پکڑلے تو کبھی ایسا تن آور ہوسکتا ہے کہ اس کو اکھاڑنا مشکل ہوجائے۔ یہی سب دیکھ کر حضرت حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور اپنے نانا کے شہر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اہل کوفہ نے ان کو خطوط بھیج کر یقین دلایاکہ وہ ان کی بیعت پر آمادہ ہیں۔ لیکن جب حسینؓ اپنے اہل وعیال کو لے کر چل پڑے تو راستے میں معلوم ہوا کہ اہل کوفہ نے جبر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ حسین چاہتے تو راستے سے پلٹ جاتے لیکن اہل ایمان کا یہ شیوہ نہیں اور ایمان کے تقاضوں سے ان سے زیادہ کون واقف ہوگا جس نے اللہ کے محبوب نبی کے آغوش میں تربیت پائی۔ پھر کربلا میں جو کچھ ہوا وہ ہر مسلمان کے علم میں ہے۔ لیکن جو بات ہم بھول جاتے ہیں وہ کربلا کا یہ درس ہے کہ ہر ظالم و جابر اور فاسق کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور اپنی جان کی پروا نہ کرنا ہی حسینیت ہے۔ کیا حسینؓ سمجھوتا کرکے اپنے اہل و عیال کو لے کر کسی محفوظ مقوم پر نہیں جاسکتے تھی؟ وہ ایسا کرسکتے تھے لیکن پھر قیامت تک یہ طے ہوجاتا کہ ظالم و جابر کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے اور مزاحمت کے بجائے مصلحت سے کام لے کر اپنی جان بچالینی چاہیے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم من حیث القوم آج یہی تو کررہے ہیں آج کا سب سے بڑا شیطان امریکا ہے اور تقریباً تمام مسلمان حکمران اس کی بیعت کرچکے ہیں۔ اسامہ بن لادن جیسی مثال تو کم ہی ملے گی کہ وہ تمام عیش و آرام چھوڑ کر امریکا کے مقابلے میں ڈٹ گیا اور شیطان بزرگ کو ناکوں چنے چابنے پر مجبور کردیا۔ افغان مجاہدین کو روز ایک نئی کربلا کا سامنا ہے اور وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے مجاہدین بھی تاریخ رقم کررہے ہیں اور برسوں سے ظالموں و جابروں کا مقابلہ کررہے ہیں لیکن مسلمانوں کے حکمران ابن زیاد کی صفوں میں نظر آتے ہیں۔ خود پاکستان میں دیکھ لیجیے۔ یزید میں اتنی خرابیاں نہیں ہوں گی جو وقت کے حکمرانوں میں ہیں۔ کون سا کام ایسا ہے جو حکمران طبقے سے سرزد نہیں ہورہا۔ کیا آج بیت المال‘ عوام کی خون پسینے کی کمائی سے جمع ہونے والی رقم کو ذاتی مال نہیں سمجھ لیا گیا؟ یہ عیاشیاں‘ یہ کروفر‘ یہ غلط بخشی آخر کس کے مال پر؟ وزیراعظم صاحب نے‘ جو سیدبھی ہیں‘ گزشتہ دنوں سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے پیپلزپارٹی کے تمام ارکان کے لیے 7-7 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ کیا یہ اربوں روپے وہ اپنی جیب سے عطا کریں گے یا عوام کے ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم پر فاتحہ پڑھ رہے ہیں؟ انہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ملک کے خزانے کو اس طرح لٹائیں؟ اگر وہ تمام ارکان پنجاب اسمبلی کے لیے ایسی سخاوت کا مظاہرہ کرتے تو بھی درگزر کیا جاسکتا تھا مگر یہ رقم وہ صرف اپنی پارٹی کو دے رہے ہیں تاکہ یہ ارکان اسمبلی آئندہ انتخابات کے لیے تیاری کرسکیں۔ کیا کوئی ایسا نہیں ہے جو حسنؓ اور حسینؓ کے خاندان سے وابستگی کا دعویٰ رکھنے والے یوسف رضا گیلانی سے پوچھ سکے کہ یہ بخشش‘ یہ سخاوت کس کے پیسے پر؟کیا عوام نے ان کو اس کا حق دیا ہی؟ اور یہی کیا ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کی شان و شوکت اور اخراجات یزید کے محل سے کہیں زیادہ ہیں۔ مگر کوئی حسین ایسا نہیں جو ان کے مقابلے میں کھڑا ہوسکے اور حساب مانگے۔ حضرت حسین کا اسوہ ہی نہیں ان کے خطابات پڑھ لیجیے کہ وہ کیا درس دیتے ہیں۔ مگر نہیں‘ ہم آنسو بہا کر ‘ سینہ کوبی کرکے‘ جلوس نکال کر اور شام غریباں منعقد کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کردیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب تک ظالموں‘ جابروں سے اعلان بریت نہ ہوگا‘ ان کے خلاف جلوس نہ نکالے جائیں گے اور وہ نظام برپا کرنے کی جدوجہد نہ کی جائے گی جو حسینؓ کا مقصد تھا تب تک شہداءکربلا کی قربانی کا حق ادا نہ ہوگا اور ہر شام ‘ شام غریباں ہی رہے گی‘ ہر صبح سوگوار ہوگی۔ حسینؓ تو صرف 72 نفوس کے ساتھ ہزاروں کی فوج سے ٹکرا گئے اور ان کے پیروکار آج امریکا و ناٹو کی قوت اور تعداد سے ڈر رہے ہیں۔ موت کا خوف غالب ہے۔