March 29th, 2024 (1445رمضان19)

شہادت حضرت امام حسینؓ

محمد آصف اقبال

شہادت امام حسینؓ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے جس کو نہ صرف اسلامی تاریخ میں بلکہ دنیا کی تاریخ میں بھی اہم مقام حاصل رہا۔ یہ شہادت کیوں پیش کی گئی؟ اس کے اسباب کیا تھے؟ کیا امام تخت و تاج کے لئے اپنے کسی ذاتی استحاق کا دعویٰ رکھتے تھے۔ تاریخ کے بطور مطالعے سے جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی دلی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتداء ہورہی تھی وہ اسلامی ریاست کے دستور، اس کے مزاج اور اس کے نو مقصد کی تبدیلی تھی۔ اگرچہ اس کے تنائج ابھی سامنے نہیں آئے تھے لیکن ایک صاحب بصیرت انسان کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ اسلامی ریاست کس کروٹ تبدیل ہو رہی ہے۔ اس کا راستہ بدل رہا ہے اور اور جس راہ پر وہ مڑ رہی ہے وہ آخر کار اسے کہاں لے جائے گی۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام نے دیکھا اور صحیح رخ پر ایک بار پھر لانے کی اپنی ساری سعی و جہد کر ڈالی یہاں تک کہ جام شہادت نوش کیا۔ اسلامی ریاست کی اوّلین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے عملی رویہ سے بھی اس عقیدہ اور یقین کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے۔ کہ ملک اللہ کا ہے، باشندے اللہ کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں اور رعیت اس کی غلام نہیں لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا اس میں اللہ کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی تھا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہ کا رہا ہے یعنی ملک بادشاہ کا، رعیت کی جان، مال، آبرو ہر چیز کا مالک بادشاہ ہے۔ اللہ کا نظام اگر عائد ہوگا تو عوام پر بادشاہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اسلامی ریاست کی سنگ بنیاد یہ تھی کہ حکومت لوگوں کی آزاانہ مرضی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کر دیں۔ بیعت حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کوئی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہوں۔ جب تک کسی آدمی کو بیعت حاصل نہ ہو وہ اقتدار میں نہ آئے اور جب سارے لوگوں کا اعتبار اس سے اٹھ جائے تو اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک اسے قاعدے سے بر سرِاقتدار آیا۔لیکن یزید ولی عہدی نے اس قاعدے کو الٹ دیا۔ اس سے خاندان کی موروثی بادشاہتوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد سے آج تک پھر مسلمانوں کی انتخابی خلافت کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہو سکا۔

اب حکمران طاقت سے بر سرِاقتدار آنے لگے، طاقت اور اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی۔ اسی جبری بیعت کو کالعدم قرار دئے جانے پر خلیفہ منصور کے زمانے میں امام مالک کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور ان کے ہاتھ شانوں سے اکھاڑ دیئے گئے یہ ہے وہ ملوکیت اور خلافت کا فرق جسکو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بہت سے اہم نکتوں میں سے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ خلافت میں حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان لوگوں سے لیا جائے جن کے علم تقوی اور اصابت رائے پر لوگوں کو اعتماد ہو لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شورائی دور کا اختتام ہو گیا اور بادشاہ اپنی مرضی سے فیصلے کرنے لگے۔

تاریخ کی اہمیت:

کسی تاریخ واقعہ کی حقیقت اور اس کی اساس ہمیں تاریخ ہی سے حاصل ہوتی ہے لہٰذا تاریخ کے بارے میں جستجو صرف فلسفیانہ اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اس کی بڑی زبردست عملی اہمیت ہے۔ اس لئے کہ انسان کی ساری سعی و جہد کا مقصد صرف یہ نہیں کے وہ اپنے ’’کیوں‘‘ کا جواب حاصل کرلے بلکہ وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ کون سا طریقہ اور راستہ ایسا ہے جو اس کو زوال سے بچا سکے اور عروج کی طرف لے جائے۔یعنی انسان کی ساری تگ و دو کا مقصد صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ کل کیا تھا کیوں تھا اور کیسے اس مقام تک پہنچا بلکہ کسی چیز کا تجسس انسان کے اندر اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ کل کے گزرے ہوئے لمحات میں ان کمیوں اور غلطیوں کو علیحدہ کردے جو اس کو ناکامی کی طرف لے جانے والی تھیں اور ان کی جگہیں ان چیزوں کو متبادل بنا دے جو اس کو آج کامیابی سے ہمکنار کرنے کا ذریعہ بننے والی ہیں۔ جس تہذیب اور قوم نے کسی زمانے عروج کی منزلیں طے کی تھیں وہ پچھلی چند صدیوں میں زوال کا شکار ہو گئی۔ تمام سلطنتیں چھین لی گئیں یا یہ کہیں کہ اس کے حکمراں اس لائق نہیں رہے کہ ان سلطنتوں کے نظام کو چلا سکیں، ایسے میں اللہ نے اپنی دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے دوسروں کو اٹھا کھڑا کیا۔ گو کہ وہ اسلامی، اخلاقی روحانی بنیادوں پر کمزور صحیح لیکن ان میں یہ طاقت ٹھہری کہ دنیا کے نظام کو چلا سکیں اور بر قرار رکھ سکیں۔ آج مسلمانوں کے پاس لاکھوں کڑوڑوں ڈالر ہیں، بے شمار انسانی وسائل ہیں۔ دنیا کے بہترین خطے ہیں، پھر یہ لوگ دنیا کی اہم شاہراہوں اور گزر گاہوں پر واقع ہیں، اس سب کے باوجود پوری دنیا میں بے وزن ہیں۔ یہ بات قابل غور ہی نہیں توجہ طلب بھی۔ تاریخ کی یہ داستان ہمارے لئے صرف علمی گفتگو اور فلسفیانہ کاوش کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ یہ دلچسپی ہمیں اسلئے بھی ہونا چاہئے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آیا ہمارا مسیحا جو مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں اور جو ہماری قوموں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ان کے ہاتھوں کیا یہ امت مسلمہ اور یہ دنیا انسانیت عروج کی منزل طے کر سکے گی۔ کیا وہ ٹیکنالوجی اور سائنس جس کو ہم لاکھوں کڑوڑوں ڈالر دے کر حاصل کر رہے ہیں اس سے ہماری قومیں ترقی کی منزل طے کر لیں گی؟ کیا معاشی ترقی کے ان پنج سالہ منصوبوں کے ذریعہ انسانیت کو اطمینان و سکون حاصل ہو سکے گا۔ ان سارے نسخوں اور مسائل کے حل کی فل واقع حقیقت کیا ہے؟ چنانچہ اس سوال کی اہمیت صرف علمی اور فلسفیانہ ہی نہیں، بلکہ عملی بھی ہے۔ کیونکہ اس سے ہمارا نہ صرف ماضی یا حال مستقبل بھی وابستہ ہے۔

قرآن کا نقطہ نظر:

قوموں کا عروج و زوال نہ مادی قوتوں پر منحصر ہے، نہ سائنس و ٹیکنالوجی کا اس میں عمل دخل ہے اور نہ علمی ترقیوں پر ہی اس کا انحصار ہے۔ بلکہ یہ خالصتاً اخلاقی اور معنوی اقدار کے اوپر منحصر ہے۔ یہ انسان کے اخلاقی کسب و اعمال کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں قومیں عروج و زوال کی طرف جاتی ہیں۔ قرآن حکیم میں جو قوموں کے عروج و زوال کا نتیجہ ہے وہ ایک فرد واحد کی زندگی سے بلکل مختلف ہے۔ فرد اس بات پر مجبور ہے کہ وہ موت کی طرف جائے اس میں اخلاقی زندگی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اگر کوئی صالح ہو گا تو اس کو بھی موت آئے گی اور کوئی فاسق تو اس کو بھی موت۔ لیکن قوموں کا معاملہ ایسا نہیں۔ قومیں لازماََ موت سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔ ان کی موت اس لئے واقع ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرتی ہیں۔ حالانکہ فرد کی موت کا تعلق اس کے اپنے نفس پر ظلم کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی فطری موت مرتا ہے۔ کسی قوم کا مٹ جانا یا اس کی موت واقع ہونا، ناگزیر عمل نہیں ہے جو اسے لازماََ پیش آئے۔ جس طرح کوئی فرد اپنی ذاتی زندگی میں اچھا بننا چاہے تو وہ بن سکتا ہے اور برا بننا چاہے تو برا بن سکتا ہے۔ اسی طرح قومیں بھی آزاد ہیں کہ وہ اچھائی کی روش پر چلنا چاہیں تو چل سکتی ہیں، ترقی کی راہیں طے کر سکتی ہیں، اخلاقی اور معنوی اقدار حاصل کر سکتی ہیں اور اگر برائی کی طرف جانا چاہیں، اپنے اوپر ظلم کریں، دنیا کے اندر ظلم و فساد کا دروازہ کھولیں تو وہ تباہی کی طرف جا سکتی ہیں اور یہ عمل ایسا بھی نہیں ہے کہ پلٹایا نا جاسکے۔ آدمی جوان ہونے کے بعد بچہ نہیں بن سکتا اور بوڑھا ہونے کے بعد جوان نہیں لیکن قومیں زوال پزیر ہونے کے بعد ایک بار پھر سر بلند ہو سکتی ہیں۔

اگر یہ بات صحیح نہ ہوتی تو انبیاء کرام کا اس قدر طویل سلسلہ نہ ہوتا۔ وہ گمراہ لوگوں کی ہدایت کی تبلیغ نہ کرتے ؎، اندھیروں سے اجالے کی طرف لوٹانا اور مصیبت کے کاموں سے چھٹکارا دلانا ان کا مقصد نہ ہوتا اور بگڑی ہوئی قوموں کے سامنے اپنا پیغام لے کر نہ کھڑے ہوتے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نسخہ ایسا ہے جس سے کوئی قوم خواہ کتنی ہی نیچے گر چکی ہو اگر وہ چاہے تو دوبارہ عروج کی طرف گامزن ہو سکتی ہے۔ انھوں نے قوموں سے وعدہ کیا اور خوشخبری بھی دی کہ اگر تم نے اپنی اصلاح کر لی یا تم اس کے لئے تیار ہو گئے تو تم خواہ کتنے ہی نچلے درجے میں کیوں نہ چلے گئے ہو تم ہی کامیاب ہو گے اور سرخروئی تمہارے قدم چومے گی۔ خود نبی کریم نے عرب کو یہ پیغام سنایا کہ اگر تم نے میری دعوت قبول کر لی تو تم عرب اور عجم دونوں کے مالک بن جاؤ گے اور دیکھنے میں آیا کہ سائنس و ٹیکنالوجی سے عاری لوگ دنیا کے امام بن گئے۔ قرآن نے اس بات کو مختلف پیرایہ بیان کیا ہے۔ ترجمہ:’’اب کیا نافرمان لوگوں کے سوا کوئی اور ہلاک ہو گا‘‘۔ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں، انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا اور کہا کہ ’’نشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ معلوم ہوا یہ فساد کئی لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے برپا ہوا اور اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ تھی۔

قوم عاد کا تذکرہ اس طرح کیا گیا:عاد کو دیکھو جب انہوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ’’ہم سے طاقتور کون ہے؟اور اس غرور کے اندر آگئے تو ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔ قوم عاد پر خدا کی پھٹکار پڑنے اور انہیں دور پھینکنے کی وجہ بھی یہی تھی کہا کہ: یہ ہیں عاد اپنے رب کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسولوں کی بات نہ مانی اور ہر جبار دشمن کی پیروی کرتے رہے‘‘۔(ھود۵۹:۱۱)۔ لہٰذا یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جس قوم کو بھی زوال و تباہی سے سابقہ پیش آیا، وہ بس اس لئے کہ اس نے اللہ کے احکامات سے بغاوت کی، ظلم اور نا انصافی کو فروغ دیا اور اس طریقے کی پیروی کی جو بدکار لوگوں کا رہا ہے۔ کہا کہ’’اور اللہ ایک ایسی بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔(النحل۱۱۲:۲۱)

غور فرمائیے کہ ایک ایسی قوم جس کے لئے ہر طرف سے دروازے کھلے ہوئے تھے، معاشی ترقی بے انتہا عروج پر تھی مزید یہ کہ اطمینان اور امن و مان قائم تھا یعنی لاء اینڈ آرڈر کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی تھی۔ ملک کا نظام مستحکم تھا لیکن ان کی کفران نعمت کی غلطی نے ان کو ہلاک کر دیا۔ کفرانِ نعمت اس طرح ہی نہیں ہوا کرتا کہ لوگ اللہ کا زبان سے شکر ادا نہ کریں بلکہ کفرانِ نعمت یہ ہے کہ اللہ نے جو بے انتہا وسائل فراہم کئے ہیں ان کو اللہ کی مرضی کے خلاف استعمال میں لا کر اس رب العالمین کی زمین پر اس کے احکامات کی خلاف ورزی کی جائے بس یہی وجہ بنی کہ اس بستی کو ہلاک کر دیا گیا۔ ان پر مصیبتیں ٹوٹ پڑیں، امن کی جگہ خوف طاری ہو گیا اور بھوک اور پیاس میں وہ مبتلا کر دیئے گئے۔ غور فرمایئے آج امت مسلمہ کی صورتحال کیا ہے؟

قبولیتِ عبادات:

قرآن حکیم کہتا ہے: ’’اور انھیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصّہ ٹھیک ٹھیک سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اس نے کہا اللہ تو متقیوں کی ہی قربانی قبول کرتا ہے۔(المائدہ:۲۸)۔ یہ ہے وہ معیار جس پر پورا اترنے والوں کی قربانی قبول کی جائے گی۔ جس میں ایک بات یہ ہے کہ وہ متقی ہوں اور دوسری یہ کہ وہ قربانی دینے میں مخلص ہوں اور یہ اخلاص ہر نہج پر ضروری ہے۔ سب سے پہلے ہم اللہ کے لئے مخلص ہوں، اپنے نبی کے لئے مخلص ہوں، اپنے دین کے لئے مخلص ہوں اور ان سب سے پہلے اپنی ذات کے لئے مخلص ہوں۔ ذات کے لئے مخلص یعنی کہ ہم اس بات پر یقین رکھنے والے ہوں کہ ہماری ذات کے ذریعے انجام دیا جانے والا ہر عمل اللہ کی خوشنودی کے لئے ہی انجام دیا جائے گا اور ہر کام سے رکنا اس بنا پر ہوگا کہ اللہ ہم کو روکنے کا حکم دیتا ہے۔ اس تصور کے ساتھ دی جانے والی ہر قربانی انشاءاللہ قبول ہو گی اور وہ ہمیں دنیا و آخرت میں مقبولیت کی راہ طے کروائے گی۔ کہا کہ ’’اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں‘‘(البقرہ:۲۶۹)۔ مزید کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں ’’جو عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔(البقرہ :۲۸۵)۔

پہلی خوبی: وہ عقل رکھتے ہیں، نہ صرف عقل رکھتے ہیں بلکہ عقل کا استعمال ان ہدایات کی روشنی میں کرتے ہیں جو ان کے رب کی طرف سے نازل ہوئیں ہیں۔

دوسری خوبی: جب ان کے پاس نصیحت آجاتی ہے تو وہ اس کو قبول کرنے سے گریز نہیں کرتے، تذبذب میں مبتلا نہیں  ہوتے، کاہلی اور تساہلی سے بچتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی قربانیاں قبول کی جاتی ہیں اور تیسری خوبی یہ کہ ان لوگوں کو یقینِ کامل ہے کہ آخر کار اس زندگی کا اختتام ہونا ہے، آخرت کا دن آنا ہے، جزا اور سزا ملنی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ جس کے سبب وہ اللہ رب العالمین سے بخششیں طلب کرتے ہیں۔پھر کہا کہ ’’اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہو سکتا ہے جس نے حکم خدا کو قبول کیا اور وہ نیکو کار بھی ہے۔اور ابرہیمؑ کے دین کا پیرو ہے جو یکسو (مسلمان) تھے اور خدا نے ابراہیمؑ کو اپنا دوست بنایا تھا(المائدہ:۱۲۵)۔

یہ وہ کسوٹی ہے جس پر ہر فرد اپنی ذات اور اپنی عبادات کا مکمل جائزہ لے سکتا ہے۔ اور یہی وہ کسوٹی ہے جس پر پرکھ کر یہ بات بھی معلوم کی جاسکتی ہے کہ آیا ہماری عبادات قبول ہونے کے لائق ہیں بھی یا نہیں!کہا کہ’’زمین و آسمان کی ہر چیز کا اسے علم ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، سب اس کو معلوم ہے، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے‘‘(البقرہ:۳۳)

تذکرہ بطور اصلاح:

جس طرح ایک انسان کی رواں دواں زندگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کو بھرپور غذا ملتی رہے ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان کے دین، اس کی فکر، اس کی نظر اور اس کے اعمال کو صحیح رخ پر قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان ایمانی غذاؤں کا استعمال کرتا رہے جو اس کو وقتاً فوقتاً تقویت پہنچانے والی ہوں۔ یہ ایمانی غذا اس صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جبکہ وہ اس کا شعوری طور پر اہتمام کرے۔ اس کے لئے جہاں دن میں پانچ مرتبہ اللہ رب العزت کی سامنے حاضری کا ایک ذریعہ ہے تو وہیں اللہ کا ذکر اور اس کی عبادات کو بجا ہر لمحہ لانا بھی معاون و مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ یہ اہتمام بندہ مومن خوشی اور غم کے ہر موقع پر کرتا ہے۔ یہی وہ عظیم مقصد ہے جس کی جانب  واقعہ امام حسینؓ ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔

یہ وہ موقع ہے جب کہ تذکرہ امام حسنؓ و حسینؓ کے ساتھ ایک عظیم مقصد کے لیے عظیمم مقصد کا عہد کیا جاتا ہے۔ قربانی کے اعلیٰ ترین نمونہ کو یاد کیا جاتا ہے اور اپنی جان و مال اور صلاحیتوں کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ یہ عہد صرف زبانی حد تک ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اثرات انسان کے ظاہر و باطن پر محسوس کیے جاتے ہیں۔ نتیجہ میں اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف مسلمانوں کو قوت حاصل ہوتی ہے جو ان کے اندر خدا پرستی کی توانائی داخل کر دیتی ہے تا کہ وہ برابر چست، فعال اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئےصراط مستقیم پر قائم ہو جائیں۔ جس طرح یہ حقیقت ہے کہ کائنات کی ہر شے مستقل حرکت پذیر ہے اس میں ٹھراؤ نہیں اور ٹھراؤ آ جائے تو یہ دنیا تباہ ہو سکتی ہے ٹھیک اسی طرح بندہ مومن کا ہر عمل اس کے ایمان کو متحرک رکھنے کا ذریعہ بننا چاہیے برخلاف اس کے فکر منجمند ہونے سے نہ صرف فرد بلکہ پوری قوم و ملّت ہلاکت و بربادی سے دو چار ہوتی ہے۔ اور یہی وہ تحریک ہے جو ہمیں امام حسنؓ اور امام حسینؓ کی زندگی سے ملتی ہے۔ آپ کے سامنے سیاسی حالات نے آنکھیں دکھائیں، وطنی مفاد آڑے آئے، وقت اور ماحول نے ساتھ دینے سے انکار کیا، مصلحتوں نے دامن پکڑا، مشکلات نے راستہ روکا، ہلاکتوں کا طوفان نمودار ہوا لیکن آپ نے اپنی آواز میں پستی نہ آنے دی آپ نے خلافت اور ملوکیت کے درمیان دیوار کھینچ دی اور ثابت کر دیا کہ عقیدے کی پختگی اور صبر و استقامت سے ہی ایک مسلمان کی زندگی دنیا و آخرت میں کامیابی و سرخ روئی حاصل کر سکتی ہے۔ اور آج یہ زندہ مثالیں مصر و فلسطی شام و عراق اور افغانستان و دنیا کے مختلف مقامات پر اسلامی نظام کے قیام میں سعی جہد کرنے والے مسلمان اپنے کردار سے پیش کر رہے ہیں۔

آئیے ہم عہد کریں اور اس عزم و حوصلے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر ہم بھی اپنی زندگی کے شب و روز میں قربانیاں دیں گے۔ اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پر قائم کرنے والوں میں شمار ہوں گے، بلکتی و سسکتی انسانیت کو امن و امان کا پیغام دیں گے چاروں جانب محبت و اخوت کا ماحول پڑوان چڑھائیں گے اور ہم جو کام بھی کریں گے بے مقصد والا یعنی نہیں کریں گے۔ امام حسنؓ و حسینؓ کا تذکرہ بھی بطور تذکرہ نہیں بلکہ تذکرہ بطور اصلاح کریں گے۔ کیونکہ ہم ان عظیم الشان شخصیات میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو اپنی ذات پر ہر لمحہ نظر رکھتے ہوئے انجام دینے والے ہر عمل کا احتساب، اللہ کے سامنے احساسِ جوابدہی کے ساتھ کرتے ہیں۔