April 19th, 2024 (1445شوال11)

  پاکستانی ميڈيا کا عروج قوم کا زوال ؟؟

 شاہنواز فاروقی

صحافت کا لفظ صحيفہ سے نکلا ہے اور صحيفے کا تعلق زمين اور ’آسمان‘ کے ساتھ ہے۔ اس کے معنی يہ ہيں کہ ہماری تہزيب ميں صحافت کا تعلق الہام کی روايت سے ہے۔ اس روايت ميں ’خبر‘ کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس کی اعلٰی ترين سطح کے حوالے سے رسول اکرم کو مخبرصادق کہا گيا ہے۔  قرآن مجيد مسلمانوں کو ہدايت کرتا ہے کہ لگی لپٹی بات نہ کہو اور سچائی سے دامن نہ بچاؤ، اس ليے تم جو کچھ کہتے ہو اور جو کچھ تمہارے دلوں ميں ہے اللہ تعالٰی کو اس کی خبر ہے۔ رسول اکرم کی ايک حديث مبارکہ کا مفہوم يہ ہے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد  ہے۔ تناظر ميں ديکھا جائے تو مسلم معاشرے میں  صحافت ايک دينی اور اخلاقی جدوجہد ہے۔ اس کا مفہوم يہ ہے کہ اسلامی معاشرے ميں، صداقت اور اس کا ابلاغ کوئی سياسی تصور نہيں، بلکہ اسلامی معاشرے ميں صداقت زندگی کے ہم معنی ہے اور صداقت کا ابلاغ زندگی کا ابلاغ ہے، صداقت کا تحفظ زندگی کا تحفظ ہے۔ ايسے معاشرے ميں صداقت مسخ ہوتی ہے تو زندگے مسخ ہوجاتی ہے، صداقت حسن سے محروم ہوتی ہے تو زندگی جمال سے عاری ہوجاتی ہے اور انسان کا اپنے خالق و مالک سے تعلق بری طرح مجروح ہو جاتا ہے۔

دنيا کی غير مسلم اقوامِ صحافت کا يہ تصور پيش کرنے سے قاصر ہيں، تاہم ان کے يہاں صحافت کی ضرورت اور اہميت کا گہرا شعور پايا جاتا ہے۔ ممتاز مورخ ايچ جی ويلز نے ايک جگہ لکھا ہے کہ سلطنت کے دور دراز علاقوں تک پہنچنے ميں کئ کئ سال لگ جاتے تھے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے سلطنت کے بڑے حصّے ميں بدنظمی عام ہوتی چلی گئ اور بلآخرسلطنت کا شيرازہ بکھر کررہ گيا ہے۔

پاکستان کی قومی تاريخ کو ديکھا جائے تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے صحافت کے حوالے سے کئ اہم باتيں کی ہيں ۔ مثلا انہوں نے ايک بات يہ کہی کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ايک ساتھ  ہوتا ہے ۔ ۱۳ مارچ ۱۹۴۷ کو ممبئ مسلم صحافيوں کے ايک نمائندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا:

آپ کے پاس بڑی طاقت ہے۔ آپ لوگوں کو راہ دکھا سکتے ہيں يا انہيں گمراہ کر سکتے ہيں۔ آپ کسی بڑی سے بڑی شخصيت کو  بنا سکتے يا تباہ کر سکتے ہيں۔ صحافت کی طاقت واقعتا بہت بڑی ہے ليکن آپ کو ياد رکھنا چاہيے کہ يہ طاقت ايک امانت ہے۔آپ اس طاقت کو ایک امانت سمجھیے ، اور یاد رکھیے آپ ترقی و بہبود کے راستے پر اپنی قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں . اس کے ساتھ میں آپ سے مکمل بے باک کی توقع رکھتا ہوں. خواہ کسی موقع پر میں غلطی پر ہوں یا لیگ اپنی پالیسی یا پروگرام کی سمت کے معاملے میں غلطی کرے ، میں چاہوں گا کہ آپ ایک دوست کی سی دیانتداری کے ساتھ اس پر تنقید کریں . ایک ایسے دوست کی طرح جس کا دل مسلمان قوم کے ساتھ دھڑک رہا ہو.

 جس وقت پاکستان وجود میں آیا اس خطے میں چند اخبارات اور رسائل و جرائد موجود تھے، تاہم ۱۹۴۷ سے ۱۹۶۵ تک صحافت نے بڑی ’’ترقی‘‘ کی ۔اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ۱۹۶۵ میں پاکستان میں شائع ہونے والے روزناموں ہفت روزوں، ماہناموں اور دیگر رسالوں کی تعداد ۱۵۹۷ تھی. لیکن قائداعظم کے خیال کے برعکس صحافت کا ’عروج ‘ قوم کا زوال بن کر سامنے آیا. حقیقی معنوں میں الیکٹرونک عہد میں داخل ہو گئی. ٹیلی وژن شروع ہوا تو اس کے چار مقاصد بیان کیے گئے تھے :

۱) اطلاع کی فراہمی

۲) تعلیم کا فروغ

۳) تفریح مہیا کرنا

۴) قومی یکجہتی کا حصول

یہ مقاصد اپنی جگہ قابلِ قدر تھے، مگر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے ریکارڈ پر ہے. ٹیلی وژن کی اطلاع سیاست کی نذر ہوگئی .

جب تک ملک میں صرف پی ٹی وی موجود تھا حکمران اس آلے کو اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے استعمال کرتے رہے ۔ اس دور میں پی ٹی وی ’ سرکاری سچ ‘ کے لیے وقف تھا. پی ٹی وی کے سیاسی افق پر اختلاف رائے کے بمبار کی کوئی گنجائش نہیں تھی . ملک میں جمہوریت بھی ہوتی تو پی ٹی وی کی سیاسی خبریں مارشل لاء کا منظر پیش کر رہی ہوتی تھی . کیونکہ اس میں حزب اختلاف کا وجود نہ ہونے کے برابر پایا جاتا تھا . آج ٹیلی ویژن چینلز کی بھی بھرمار ہوگئی ہے لیکن ٹیلی ویژن کی اطلاع نہ سیاست سے بلند ہوتی ہے اور نہ اس اطلاع میں وہ مصروفیت اور ایمانداری پائی جاتی ہے جو اطلاع کے حوالے سے ناگزیر ہے. چنانچہ دیکھاگیا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے بڑے بڑے جلسے ٹیلی ویژن پر نظر نہیں آتے اور بہت چھوٹی چھوٹی سیاسی شخصیتوں اور جماعتوں کو ٹی وی چینلز پر بھی چھ گھنٹوں تک براہ راست نشر کیا جاتا ہے . ٹیلی ویژن کے میڈیم کی یہ جانبداری خود میڈیم اور معاشرے کی سیاسی صحت کے لیے مضر ہے .

ٹیلی ویژن کا ایک مقصد تعلیم کا فروغ بھی تھا. لیکن ٹیلی ویژن نہ پی ٹی وی کے عہد میں تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہوا اور نہ آج ’ٹیلی انقلاب ‘ کے دور میں تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہورہا ہے .اسکی وجہ یہ ہے کہ علم کا فروغ نہ حکمرانوں کو درکار تھا نہ نجی ٹیلی ویژن کے مالکان کو اس مقصد سے کوئی دلچسپی ہے . کہنے والے کہتے ہیں صحا فت کبھی مشن تھی مگر اب کاروبار ہے لیکن بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو اپنے دین اور معاشرے سے محبت ہوتی ہے وہ کاروبار کو بھی مشن بنا دیتے ہیں اور جن لوگوں کو اپنے دین اور معاشرے سے سے محبت نہیں ہوتی وہ مشن کو بھی کاروبار بنا لیتے ہیں .

پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے ابتدائی اور بڑی حد تک بعد کے زمانے میں بھی تفریح کی فراہمی کا کام دل لگا کر کیا . اس کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پی ٹی وی کے ڈرامے بھارت جیسے ملک پر اثر انداز ہوئے جہاں دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری پائی جاتی ہے .

لیکن بعد ازاں پی ٹی وی کی تفریح مغربیت اور سطحیت کی زد میں آگئی ملک میں آنے والے ’ٹیلی انقلاب ‘ نے اس صورت حال مزید سنگین بنا دیا ہے اور اب تفریح کا مفہوم ’بدذوقی‘ بن کر رہ گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں کلچر اور فن کا معیار انتہائی پست ہو گیا ہے . ہم اپنے علوم وفنون کی روایت سے بہت دور ہو گئے ہیں. اس کی دوسری وجہ کارپوریٹ کلچر ہے . اس کلچر کے دائرے میں پروگراموں کو اسپانسر کرنے والے تفریح کی نوعیت کا تعین کررہے ہیں وہ بتا رہے ہیں کہ اس موضوع پر ڈرامہ دکھایا جائے گا تو ہم سے اسپانسر کریں گے ورنہ نہیں کریں گے یہ تفریح کی جدید ترین اور زیادہ بدترین صورت ہے اور اس نے ہمارے ٹیلی ویژن کو بھارت اور مغربی ملکوں کا ’نقال ‘ بنا کر رکھ دیا ہے .

پاکستان ٹیلی ویژن متعارف ہوا تھا تو اس کا یہ مقصد یہ بیان کیا گیا تھا کہ اس کا ذریعہ قومی یکجہتی کے حصول کو یقینی بنایا جائے گا . لیکن پی ٹی وی ۱۹۶۴ ء سے ۱۹۷۱ء تک یہ کام نہ کر سکا . اس نے یہ کام کیاہوتا تو ۱۶ دسمبر کو سقوت ڈھا کہ نہ ہوا ہوتا . ٹیلی انقلاب کے بعد قومی یکجہتی کے حصول کے حوالے سے کوئی پیشِ رفت دیکھنے میں نہیں آئی . ۱۹۷۱ء میں ٹیلی ویژن یہ بتارہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہورہا ہے اور ۲۰۱۲ء میں ٹیلی ویژن یہ بتا رہا کہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں کیا ہورہا ہے؟

پرویز مشرف کے دور مے آنے والا ٹیلی انقلاب دراصل ’ٹیلی دھماکہ تھا. اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس دھماکے کی ابلاغی تابکاری سے کروڑوں لوگ جھلس رہے ہیں. جنرل پرویز مشرف نے اس دھماکے کے بارے میں اس تاثر کو عام کیا کہ وہ آزادی اظہار کے بڑے قائل ہیں. لیکن جنرل ایوب نے پاکستان میں ٹیلی ویژن اس لیے شروع نہیں کیا تھا کہ وہ آزادی اظہار کے بڑے قائل ہوگئے تھے، بلکہ بحییثیت جنرل وہ تاحیات اقتدار میں رہنے کے خواب دیکھ رہے تھیاور ان کا خیال تھا کہ ٹیلی وژن ان کے لیے پروپگینڈے کا موثر ترین ذریعہ ثابت ہوگا .

ایلون ٹوفلر نے اپنی تصنیف’ ’ FUTURE SHOCK ‘‘ میں دوسری عالمی جنگ کا واقعہ تحریر کیا ہے. واقعے کے مطابق برما کے محاذ پر بعض فوجیوں کے حوالے سے رپورٹ ہوا کہ وہ شدید فائرنگ کے دوران سوجاتے ہیں . گولیاں ان کے آس پاس سے گزرتے رہتی ہیں مگر ان کی نیند نہیں ٹوٹتی. ان فوجیوں کا نفسیاتی ہوا تجزیہ ہوا تو یہ بات سامنے آئی کہ میدانِ جنگ میں بدترین فائرنگ کے دوران ان کے سوجانے کی وجہ بلاشبہ تھکن اور نیند کی قلت بھی ہے۔ مگر اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا ذہن اور ان کے اعصاب مسلسل رد عمل ظاہر کرنے سے قاصر ہیں ۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والی ٹیلی وژن نشریات کامعاملہ بھی یہی ہے ۔  نشریات کی اس قسم سے ناظرین پر ہزاروں پیغامات کی فائرنگ ہوتی رہتی ہے . نتیجتاََ اکثر لوگوں کا ذہن ردعمل ظاہر کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور اس پرایک طرح کی غنودگی طاری ہوجاتی ہے . ایسے لوگوں کے ساتھ حکمرانوں کے محکوم اور عامل کے معمول بن سکتے ہیں .

پاکستان میں دھما کے کا ایک نتیجہ برآمد ہوا ملک میں آرا کا سیلاب آگیا ہے . سیلاب کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں ہر طرف پانی ہوتا ہے مگر پینے کے لیے پانی کی ایک بوند بھی آسانی کے ساتھ دستیاب نہیں ہوتی . مطلب یہ کہ پاکستان میں ٹیلی وژن نے اچانک آرا کیاایسی کثرت کردی ہے کہ عام لوگوں کی کوئی مستحکم رائے ہی نہیں رہی . بلاشبہ ان کے پاس اطلاعات بہت ہیں مگر یہ اطلاعات بہت ہیں مگر یہ اطلاعات بکھری ہوئی ہیں . انہیں باہم مربوط کر کے علم بنانے والا کوئی نہیں . ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شعور بکھری ہوئی اطلاعات سے نہیں علم سے نموپاتا ہے۔

پاکستان میں ٹیلی وژن کے عروج نے قومی صحافت کو سطحیت کی ایک سطح فراہم کردی ہے۔ ٹی وی چینلوں کے اینکرپر سنز کی کثریت تواترکے ساتھ الفاظ اگلنے والی مشین بنی نظر آتی ہے۔ٹاک شوز مرغوں کی لڑائی کا منظر پیش کررہے ہیں اور سیاستدانوں کی سماجی چھینک اور سماجی جماہی بھی بریکنگ نیوز بن گئی ہے۔ یہ منظر نامہ علم ،شعور اور تفہیم کی ہی نہیں اطلاعات کی بھی ضد ہے۔ابھی یہ صوت صرف تشویش ناک ہے لیکن جب ٹیلی وژن کا عروج سطحیت کوقوم کا ذوق بنادے گا تو ٹیلی وژن کا عروج قومی شعور کے خلاف ایک کھلی سازش بن جائے گا ۔ اس لیے قوم کیا  فرد ذوق کو بھی بدلنا آسان نہیں ہوتا ۔ ذوق برسوں میں بگڑتا ہے اور کئی نسلو ں کی قربانی کے بعد صحت کی طرف لوٹتا ہے ۔ بلکہ کبھی کبھی تو ذوق کی بحالی میں صدیاں لگ جاتی ہیں ۔

پاکستان میں ٹیلی دھماکے نے عریانی وفحاشی کو ایک نئی گہرائی فراہم کی ہے ۔تجزیہ کیا جائے توپاکستان جیسے غریب معاشرے میں تعیش زندگی کی ایک بڑے پیمانے پر پیشکش بھی فحش ہے۔اس لیے کہ اس پیشکش میں غریبوں کے لیے ایک گہرا ملال ،ایک گہری حرص اور ایک ترغیب موجود ہے ۔لیکن اس کے باجود نجی ٹیلی وژن چینلوں کے اکثرڈراموں ،یہاں تک کہ عام پروگراموں کے سیٹس بھی پر تعیش زندگی کااشتہاربنے نظر آتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ فحش کا تعلق عورت کے مخصوص لباس اور تراش خراش کے ساتھ تھا ، لیکن نیا ٹیلی ڈرامہ موضوعات میں بھی فحش کو گھسیٹ لایا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ طوائفوں اور کوٹھوں کے موضوعات پر ڈرامے پیش ہورہے ہی اور کہا جارہا ہے کہ آخر یہ بھی تو معاشرے کا مسئلہ ہے۔ لیکن یہ استشنائی مثالوں کو عمومی بنانے کی کوشش ہے جس کا کوئی کتنیکی جوازنہیں ہے۔اس لئے کہ پاکستان میں مسائل کی کمی نہیں ملک کی 80فصد آبادی خط غربت سے نیچے کھڑی ہے۔ملک کی آدھی تاریخ فوجی آمر یتوں اور باقی آدھی تاریخ سول آمریتوں اوررسول نااہلیتوں کی نظر ہوگئی ہے۔سیاست میں بدعنوانی عام ہے۔سیاسی جماعتیں مافیا کا کردار ادا کرہی ہیں۔ ملک کی آزادی کا سود اچکاہے۔ ملک میں بیرونی مداخلت عروج پر ہے ۔ملک کی 70فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔چوری ڈاکے عام ہیں ۔ان موضوعات میں ہزاروں کہانیاں ہیں ۔ہزاروں ڈرامے ہیں ،مگر معاشرے کے ان اصل موضوعات پر تو کوئی ادب اور آرٹ تخلیق نہیں کر رہا لیکن اشتنائی مثالیں لوگوں کو خوب نظر آرہی ہیں ۔اس صورت حال کا مفہوم عیاں ہے ۔امریکہ ،بھارت اور ان کے مقامی ایجٹ معاشرے کی مذہبی بنیادوں کو کھودڈالناچاہتے ہیں ۔ وہ ملک پر عسکری ،سیاسی اور سفارتی دہشتگردی کے ساتھ ساتھ ثقافتی دہشت گردی بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ٹیلی وژن کا عروج قوم کا اخلاقی زوال بن گیا ہے۔

پاکستان میں ہونے والے ٹیلی دھماکے میں مذہب ،مذہبی فکر،مذہبی طبقات اور مذہبی شخصیات کے لیے ایک تعصب اور جہل موجود ہے ۔ اسکا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ توہین رسالت کے مسئلے میں بھی ٹی وی چینلوں میں ایسے گفتگوہوئی جیسے توہین رسالت کا مسئلہ گلی محلے کا مسئلہ ہو ۔جیسے اس مسئلہ میں کوئی تقدیس،کوئی عظمت اور کوئی حساسیت نہ ہو۔ٹی وی کے مذاکروں میں یہ بات بھی نوٹ کی جاتی ہے کہ مذہبی شخصیت کو اقلیت کے نمائندے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ، مثلاََ مذہبی شخصیت ایک ہوتی ہے تو سیکولار شخصیات تین. اور عام طور پر سیکولر طبقات سے بھاری بھرکم شخصیات کو بلایا جاتا ہیاور مذہبی طبقات سے کمزور لوگ تلاش کر کے بلائے جاتے ہیں .

اس صورت حال کا ہولناک ترین پہلو یہ ہے کہ معاشرے کی عظیم اکثریت کو ان تمام حقائق کا علم ہی نہیں . وہ صحافت اور ٹیلی وژن کے ذرائع اور ان کے مواد کو گہرائی سے دیکھتی ہی نہیں . چنانچہ ان حقائق کے شعور کو عام کرنا بجائے خود ایک جدوجہد بن گیا ہے .

ہمارا دین بتاتا ہے زندگی میں فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے. ایک تقویٰ اور دوسری علم اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کا ہیرو تو’’متقی‘‘ شخص ہوگایا’’ صاحب علم ‘‘ ان سے بڑا ہیرو وہ ہوگا جس میں تقویٰاور علم دونوں جمع ہوجائیں لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ نے ہمارے ذرائع ابلاغ نے ہمارے ہیروز بدل ڈالے ہیں ۔ میڈیا نے جن لوگوں کو معاشرے کا ہیرو بنایا ہے ان میں اداکار ، کھلاڑی اور برسر اقتدار سیاستدان سر فہرست ہیں ۔ ان ہیروز کا معاشرے پر اتنا غلبہ ہوگیا ہے کہ متقی ،صاحب علم انسان ، ادیب ، دانش ور اور استاد کو کوئی پوچھتاہی نہیں . میڈیا نے ہماری نئی نسل میں ماں، بیٹی ، بیوی اور بہن کی عظمت کو عام کرنے کے بجائے ان میں اداکاراؤں اور ماڈل گرلز کے کرداری نمونوں کے لیے بے پناہ کشش پیدا کی ہے . چنانچہ ہماری بچیاں، ماں،بیٹی ،بیوی اور بہن کی روائتی کردار سے خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے دشواری محسوس کرتی ہے اور ان کا جیسا بننے یا ان کی طرح زندگی گزارنے کے خواب دیکھتی ہیں ۔ایک زمانہ تھا کہ اداکارائیں اور ماڈل گرلز کہا کرتی تھیں کہ ہمیں گھر کا کام کاج نہیں آتا. آج ہمارے بالائی طبقات کیا متوسط طبقات کی لڑکیاں فخر سے کہتی ہیں کہ ہمیں تو انڈہ بنانا بھی نہیں آتا .

کھانا پینا زندگی کا حصہ ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا ۔ لیکن زندہ رہنے کے لیے کھانا اور کھانے کے لیے زندہ رہنے میں زمین وآسمان کا فرق ہے . بدقسمتی سے ہمارے یہاں ٹیلی وژن جس طرز حیات کو پروان چڑھا رہا ہے اس میں کھا نا پینا زندگی کا حصہ نہیں بلکہ زندگی کھانے پینے کا حصہ بن گئی ہے . اس صورت حا ل کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جیسے پیٹ میں ہمارا دماغ ہے پیٹ ہی ہمارادل ہے اور پیٹ ہی ہماری روح ہے .

ہماری تزیب اور ہمارا معادل مرکز یا Heart Centric ہے . لیکن ٹیلی وژن اسے غذا مرکز یا Food Centric بنا رہا ہے . یہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کا دور ہے ان ذرائع نے ابلاغ اور رابطے کے نظام کو ایک ایسے انقلاب سے دوچار کردیا ہے جس کا کبھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا. یہ دونوں ذرائع ایسے ہیں جن کو ہم اپنی زندگی سے نکال نہیں سکتے لیکن ان کے حوالے سے حقائق کا ادراک ضروری ہے .

 

وسعتوں میں لوگ کھودیتے خود اپنا شعور

اپنی حد میں آئیے اور اآگہی بن جائے

 

ہمیں ابلاغ اور رابطے کے حوالے سے اپنی ’’انفرادی حد‘‘ کا اندازہ ہونا چاہیئے ورنہ ابلاغ اور رابطہ کی وسعت میں ہماراوجود کھل کر رہ جائے گا . اس معاملہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اطلاع ایک قوت ہے. اگر ہمیں اس قوت کا اندازہ نہ ہو تو اس قوت سے ہمیں فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوگا. اس سلسلہ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو نوجوانوں کی اخلاقی اور علمی تربیت کو بہتر بنائیں. اس طرح ہم ابلاغ کے ان ذرائع کو اپنی کمزوری کے بجائے اپنی قوت بناسکتے ہیں . کمزوری قوت بنانا ایک جدوجہد ہے جو ہم سب اپنے دائروں میں کرنے کے مکلّف ہیں بحیثیت اس وطن کے شہری ، والدین ، اساتذہ ، ذرائع ابلاغ ، حکومت ۔۔۔۔ تو کیا آپ اس میڈیا کو اپنی قوت بنانے میں کردار ادا نہیں کریں گے ؟؟؟