April 18th, 2024 (1445شوال10)

تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے

افشاں نوید

سورة القدر میں جس رات کا ذکر ہے اس رات نے در حقیقت پوری کائنات کو خوشی اور سر شاری سے ہمکنار کیا ہے....یہ عرش و زمین کے باہمی اتصال کی کتنی خوبصورت اور حیرت انگیز رات تھی ایسی رات جس کا اس زمین اور آسمان نے آج تک مشاہدہ نہ کیا تھا ....انسانی فہم و ادراک جتنا بھی ترقی کرجائے وہ اس عظیم رات کی عظمت کا ادراک کرنے سے قاصر رہے گا کہ وما ادرٰک ما لیلتہ القدر ....تم ادراک نہیں کر سکتے کہ لیلتہ القدر کیاہی....کیا حسین اور وجد میں لانے والا منظر قرآن پیش کرتا ہے کہ فرشتوں کے جھرمٹ میں روح الامیں زمین کی جانب رواں دواں ہیں ....اہل زمیں کے لیے سوغات لیکر ،کائنات کا سب سے عظیم تحفہ لیکرآسمان دنیا سے زمین تک ہر طرف نور ہی نور ہے اور پوری کائنات سراپا نور ہی....نہ صرف یہ رات سلامتی ہے بلکہ یہ رات جو عظیم پیغام لیکر آئی ہے وہ پیغام رہتی انسانیت تک کے لئے سلامتی کا پیغام ہی....یہ کونسی رات ہے اس میں بہت سی روایتیں ہیں لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ یہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے اور قدر والی رات ہے اور قدر کا مفہوم کہیں علماءتدبیر امر بیان کرتے ہیں اور کہیں قدر و قیمت ،حقیقتاً دونوں ہی مفہوم اس لفظ "قدر " میں مخفی ہیں کیونکہ وہ عظیم الشان فیصلہ اور تدبیر جو اس رات میں کی گئی اس نے واقعتاً رہتی دنیا تک کے بندوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی ....ہزاروں مہینوں اور ہزاروں سال میں انسانیت کی فلاح کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس ایک رات میں انجام پایا ....کہ قرآن کی شکل میں جو عقیدہ ، جو قانون ،جو آئین، جو اصول و ضوابط وضع کیے گئے رہتی دنیاتک انسانوں کی سلامتی انہی پر عمل سے وابستہ ہے ....اس قدت ر والی رات میں انسانیت کو نئی قدروں سے روشناس کرایا گیا ۔-صدیوں سے رائج جاہلیت کے دور کی سب قدریں ،سب پیمانے کل کی کل تہذیب اور تمدن سب کو مسترد کر دیا گیا۔اب انسانیت کو ہمیشہ رہنے والی عظیم قدریں اور نئے پیمانے دئے گئے ۔نسلی اورنصبی غرور خاک میں ملا دیے گئے ۔ایک دوسرے پر شرف اور برتری کے پیمانے یکلخت تبدیل کر دیے گئے ۔ اس ایک رات کی عظمت رہتی دنیا تک ثبت کر دی گئی کہ انسانیت اس عظیم ترین یادگار واقعے کو فراموش نہ کر دے ۔اس سے غافل نہ ہو جائے ۔لہٰذا رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہر سال اس عظیم رات کے شایان شان اس کا استقبال کریں اس عظیم واقعہ کی یاد کو زندہ کریں ۔اس رات کو تلاش کریں ۔ صحیحین کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے شب قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گی" شب قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت کہ اپنے گزرے ہوئے روز و شب کا تنہائی میں جائزہ لیا جائے اپنا بے لاگ احتساب کیا جائے جو رعایتیں ہم نے اپنے نفس کو دے دے کر اسے گناہوںکا خوگر بنا دیا ہے آج کی رات وہ حقیقی آئینہ بن جائیں جس میں ہم بے لاگ اور بے رحمانہ طریقہ سے بغیر خود کو رعایتیں دیتے ہوئے اپنا احتساب کر لیں کہ ابھی تو رجوع کا وقت ہے ابھی تو تو بتہ المنصوم کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔نہ معلوم آنے والے سال مین ہمیں یہ ایمان و احتساب کی قدر والی رات نصیب بھی ہو کہ نہ ہو لہٰذااس بار ان گھڑیوں کو غنیمت جانتے ہوئے آئندہ کی بہتری کے جو امکانات ہو سکتے ہیں یہ قدر والی رات دراصل اسی بہتر زندگی کی طرف دعوت دینے والی رات ہے کہ سچی استغفار کریں اپنا کڑا محاسبہ کریں ۔جو نافرمانیاں کر چکے ان پر ندامت کے آنسو بہائیں جو نیکیاں نہ کر سکے آج کی رات ان کی توفیق طلب کر لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بندہ خاکی اگر اس رات کی حقیقی قدر پہچان لے تو اس ایک رات میں وہ خدا کے قرب کی اتنی منزلیں طے کر سکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں بھی ممکن نہیں کہ اس کے پردے میں جو خزانے چھپے ہیں آج کی رات کی تلاش میں جو گرم دم جستجو ہوگا وہی ان خزانوں کو پا سکے گا حضرت ابن ابی حاتم نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک صحابی کا ذکر کیا ہے جو ایک ہزار مہینے تک مسلسل مشغول جہاد رہا اور اس نے کبھی ہتھیار نہیں اتارے ۔مسلمان یہ سن کر تعجب اور رشک کرتے تھے جس پر یہ سورہ قدر نازل ہوئی اور امت کے لئے صرف ایک رات کی عبادت کو اس مجاہد کی عمر بھر کی عبادت یعنی ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دیا اللہ تعالیٰ نے سورہ قدر نازل فرما کر اس امت کی فضیلت سب پر ثابت کر دی اس طرح شب قدرامت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیازات میں سے ایک امتیاز ہے یہ وہی عظیم رات ہے جسکا ذکر سورہ دخان میں اس طرح ہے "بے شک ہم نے اس (قرآن ) کو ایک بابرکت رات میں اتارا ہے یقیناً ہم (قرآن کے ذریعے ) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں ۔اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں یہ تمہارے رب کی رحمت کے باعث ہے یقیناً وہ سب کچھ سننے والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے (الدخان 44:6-3 ) یعنی رمضان المبارک کی اس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اللہ کے بندوں تک اسکی تعلیمات پہنچادیں ہم اہل پاکستان جو اس ماہ مبارک میں اپنی آزادی کا 65 واں جشن منانے جا رہے ہیں اور شب قدر کی کسی ایسی ہی عظیم رات کو ہمیں یہ لا الہ کی سر زمیں عطا ہوئی تھی ہم اسکے وارث بنائے گئے تھے کہ یہاں ایک اللہ کی حکمرانی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے ۔جشن آزادی کی تیاریوں کے ساتھ جب ہم شب قدر کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہوں تو اس جائزے اور احتساب کا اس سے بہتر موقع اور کبھی ہمیں نصیب نہ ہوگا کہ ہم بے لاگ احتساب کریں کہ لا الہ کی وارث اس سر زمیں پر جن فتنوں نے آج سر اٹھایا ہوا ہے آ ج روز و شب معصوم کلمہ گو مسلمانوں کا لہو اس مٹی میں جذب ہو رہا ہے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں کونسی آزمائش ہے جسکی بھٹی میں ہم اسوقت نہیں سلگ رہے ہم اللہ کی حدود کو توڑتے رہے اور اسکی نعمتوں سے محروم ہوتے رہے ۔شب قدر میں ملنے والی سعادت ( پاکستان) کی ہم نے قدر نہ کی تو بد بختی ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی ۔ہماری جہالت اور غفلت نے ہمیں آج یہاں لا کھڑا کیا کہ نہ سرحدیں محفوظ ہیں نہ گھر ۔نہ قومی حمیت باقی ہے نہ انسانی جان کی کوئی قیمت ہے۔یہ سلامتی والی رات یاد دہانی ہے ہمارے لئے کہ حقیقی سلامتی ، ہمارے معاشرے کی سلامتی ،ہمارے ایمان کی سلامتی ، ہمارے کردار کی سلامتی ، ہمارے گھروں کی سلامتی، ہمارے دلوں کا سکوںن اور سلامتی، سب اسی شب قدرکے پیغام میں مضمر ہیں جسے ہم بھلا کر حقیقی محرومی کی صف میں شامل ہو گئے یہ رمضان اور شب قدر ان محرومیوں کی تلافی کے لیے ہمیں پکار رہے ہیں جو تلافی اغیار کی غلامی اور ڈالروں کی گھن گرج نہیں کر سکتی ۔ہماری مادی ارتقاء، ہماری روحانی ارتقاءاسی سے وابستہ ہے اسی سے ہماری تہذیب و تمدن کا ارتقاءوابستہ ہے یہ نورانی رات مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہمیں پھر اسی نور کی طرف دعوت دے رہی ہے جو 14 سو برس قبل انسانیت کی روح میں جب چمکا تھا تو عرب و عجم انکے غلام ہو گئے تھے ۔شرق و غرب میں انکا اقتدار کا غلبہ تھا وہ عظیم رات جو ملا اعلیٰ سے ربط و تعلق کی رات ہے جس میں جبریل امین کا نزول فرشتوں کے جھرمٹ میں اہل زمیں کی طرف ہوتا ہے ہماری تمام تر محرومیوں اور شقاوت کے باوجود ایک بار پھر یہ عظیم رات ہمیں نصیب ہو رہی ہے اور لازم ہے کہ ہم اپنی روح اور قلب پر اس کے اثرات کو محسوس کریں اسلامی عبادات محض ایک رسم یا وظائف میں اعداد و شمار کی ایک گنتی یا تعداد کے ساتھ کچھ نفلی نمازوں کا نام نہیں بلکہ اس رات کو ایمان اور احتساب کے ساتھ گزارنے کا حکم ہی اس لیے ہے کہ ہمارا قلب زندہ وبیدار ہو۔ ہم اللہ اور قرآن سے اپنے حقیقی تعلق کا جائزہ لیں اور یہ عبادت کی راتیں ہمیں وہ شعور اور بصیرت دے جائیں کہ ہم حقائق پر غور و فکر کرنے کے عادی ہو جائیں اور صرف وہ چند راتوں کی عبادت اور چند گھنٹوں کی خشیت اور رجوع الی اللہ کی کیفیت نہ ہو بلکہ ہمارے دل کی دنیا اس انقلاب سے دو چار ہو کہ ہمارے عمل سے اسکے ثمرات ظاہر ہوں اور پوری معاشرتی زندگی کے لیے قوت محرکہ بن جائیں....بلاشبہ یہ رات بہترین اسلامی نظام تربیت کا ایک جزو ہے اگر ہم اسکو پورے شعور اور ادراک کے ساتھ گزارنے والے بن جائیں ۔

بشکریہ جسارت