April 19th, 2024 (1445شوال10)

شب قدر اور قیامِ لیل

افشاں نوید

وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِo(القدر۹۷:۲)’’اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟‘‘ یہ رات نہ صرف سلامتی ہے بلکہ رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے سلامتی کا پیغام ہے، اور وہ پیغام جو اس قدر والی رات میں اُترا بہت قابلِ قدر ہے۔ کیونکہ وہ عظیم الشان فیصلہ اور تدبیر جو اس رات میں کی گئی، اس نے حقیقتاً رہتی دنیا تک کے انسانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ اور قرآن کی شکل میں جو عقیدہ، قانون اور آئین دیا گیا، اب انسانوں کی سلامتی و نجات اسی پر عمل سے مشروط ہے۔

اس قدر والی رات میں انسانیت کو جو قدریں دی گئیں انھوں نے پرانی اقدار، تہذیب اور تمدن سب کو بدل کر رکھ دیا۔ نہ صرف نسلی اور نسبی غرور خاک میں ملا دیے گئے بلکہ ایک دوسرے پر شرف و برتری اور عزت و اِکرام کے پیمانے تبدیل کردیے گئے۔ شبِ قدر یقیناًاُمتِ محمدیؐ کے امتیازات میں سے ایک امتیاز ہے۔

لیلۃ القدر اور طاق راتیں اس آخری عشرۂ مبارک کی بہتر زندگی کی طرف دعوت دینے والی راتیں ہیں، استغفار اور محاسبے کی راتیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم ’راتوں‘ کی قدر پہچان لیں تو ہم ہر رات کی قدر کرنا شروع کر دیں۔ اس لیے کہ رات بندۂ مومن کے لیے قربِ الٰہی کا پیغام لاتی ہے اور ہر رات کے پردے میں خزانے چھپے ہیں۔ اس لیے اہلِ ایمان نالۂ نیم شبی کے ذریعے ان خزانوں کی جستجو میں گرم دمِ جستجو رہتے ہیں اور جب لوگ محوِ خواب ہوتے ہیں تو وہ رب کے سامنے خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں اور رات کی تنہائی میں رب ذوالجلال کا قرب حاصل کرنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں اور انھیں ’نشاطِ آہِ سحر‘ حاصل ہوجاتی ہے۔

آپؐ کا ارشاد ہے: ’’رات کے وقت میں ایک ایسی ساعت ہوتی ہے کہ جس مسلمان بندے کو حاصل ہوجائے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی کوئی خیروبھلائی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ خیروبھلائی ضرور عطا فرماتے ہیں اور وہ ساعت ہر رات آتی ہے‘‘۔(مسلم ، احمد)

اللہ کے وہ بندے جو نرم گرم بستروں کو چھوڑ کر ، معرفت الٰہی کی جستجو میں عازمِ سفر ہوئے، رب کے دَر پر حاضر ہوئے تو اللہ پاک نے ان کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا: ’’وہ راتوں کو بہت کم سوتے ہیں اور بہ وقتِ سحر استغفار کرتے ہیں‘‘ (الذاریات۵۱:۱۷۔۱۸)۔ مزید فرمایا: ’’وہ ایسے قیام کرنے والے لوگ ہیں جو رات کی ساعت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدہ ریز رہتے ہیں‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۳)

قیامِ لیل کی یہ عبادت ہمیشہ سے مسلمانوں کا شعار رہی ہے، حتیٰ کہ وہ میدانِ جنگ میں بھی اس سے غافل نہیں ہوتے تھے اور اس سے ایسی قوت پاتے تھے کہ اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر کو نہ صرف للکارتے بلکہ اس پر ہیبت طاری کردیتے۔

حقیقت یہ ہے کہ داعیانہ کردار کے تقاضوں کو نبھانے کے لیے جس ٹھوس جدوجہد کی ضرورت ہے، قیامِ لیل ہی سے اس کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے آپؐ کو یہ عظیم مشن سونپتے وقت حکم دیا گیا کہ ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات کو کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی رات، یعنی نصف رات یا اس سے کسی قدر کم کردو یا اس سے کچھ بڑھا دو اور قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو‘‘ (المزمل۷۳: ۱۔۴)۔پھر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: ’’اس کو معلوم ہے کہ بعض آدمی تم میں سے بیمار ہوں گے سو تم لوگ جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لیا کرو‘‘ (المزمل۷۳:۲۰)۔ تاہم فرض نہ ہونے کے باوجود اس کو متقین اور صالحین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے: ’’ان کے پہلو خواب گواہوں سے دُور رہتے ہیں، اپنے رب کو خوف اور اُمید کے ساتھ پکارتے ہیں‘‘ (السجدہ۳۲:۱۶)۔اور وہ راتوں کو کھڑے رہنے والے، اپنے رب کی مناجات اور گریہ و زاری کرنے والے اپنے چہروں سے بھی پہچان لیے جاتے ہیں: سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْہِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ط (الفتح۴۸:۲۹)، یعنی ان کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔

حضرت ابومالک الاشعریؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت میں ایک بالاخانہ ہے جس کا باہر کا حصہ اس کے اندر سے اور اندر کا حصہ اس کے باہر سے نظر آتا ہے‘ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! وہ بالاخانہ کن لوگوں کے لیے ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے وہ بالاخانہ ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور گفتگو نرم انداز میں کرتے ہیں اور راتوں کو قیام کرتے ہیں، جب کہ لوگ سو رہے ہوں‘‘۔ (احمد، بیہقی)

ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے کام کے بارے میں دریافت کیا کہ جب اس پر عمل کیا جائے تو جنت میں داخلہ نصیب ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’سلام کو رواج دو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات کو قیام کرو جب لوگ سو رہے ہوں، تو تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے‘‘۔ (رواہ احمد والحاکم)

جلیل القدر صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو یوں عرض گزار ہوئے: ’’اے اللہ! بے شک آپ جانتے ہیں کہ میں دنیا کی محبت نہیں رکھتا تھا اور نہ نہریں کھودنے یا درخت لگانے کے لیے دنیا میں لمبی زندگی کا کبھی خواہش مند ہوا، ہاں البتہ سخت دوپہر کے وقت کی پیاس (روزہ) اور قیامِ لیل کے لیے رات کے وقت کی مشقت پسند کرتا تھا اور ذکر کے حلقوں کے وقت علما کا اژدحام پسند کرتا تھا۔ (النووی فی تہذیب الاسماء)

اپنے اسلاف اور اولیا اللہ کے ان اقوال کی روشنی میں قیامِ لیل کی سعادت نہ ملنا سواے بدنصیبی کے اور کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ گناہوں کے ارتکاب سے ہمارے دل سخت ہوجاتے ہیں اور فرض نمازوں کا خشوع و خضوع بھی رخصت ہوجاتا ہے۔

حضرت حسن بصریؒ سے کسی نے اپنی بے ہمتی کی شکایت کی کہ قیامِ لیل کے لیے وہ اپنے اندر ہمت اور طاقت نہیں پاتا۔ آپ نے فرمایا: تیرے گناہوں نے تجھے پابہ زنجیر کر رکھا ہے ۔ بندہ جب گناہ کرتا ہے تو قیامِ لیل کی دولت سے محروم کردیا جاتا ہے۔

ایک آدمی ابراہیم بن ادھم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے شب بیداری کی توفیق نہیں ملتی، کچھ علاج تجویز فرمائیں۔ فرمایا: ’’دن کو اس کی نافرمانی نہ کر وہ تجھے رات کو اپنے سامنے کھڑا ہونے کی توفیق عطا فرمائے گا۔ یہ عظیم ترین شرف و اعزاز ہے۔ عاصی اور گناہ گار اس شرفِ عظیم کے مستحق نہیں ہوسکتے‘‘۔(تنبیہ المفسرین للشعرانی)

نہ معلوم ہمیں اگلے برس کا رمضان اور یہ قدر والی راتیں نصیب ہوں کہ نہ ہوں، لہٰذا اس بار ان گھڑیوں کو غنیمت جانیں اور ایمان اور احتساب کے ساتھ لعل و یاقوت سے زیادہ قیمتی ان لمحات کی صحیح معنوں میں قدر کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بندۂ خاکی اس رات کی حقیقی قدر پہچان لے تو اس ایک رات میں وہ خدا کے قرب کی اتنی منزلیں طے کرسکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں بھی ممکن نہیں۔

شبِ قدر احتساب کی رات ہے، اسی عظیم شب میں ہمیں وطنِ عزیز حاصل ہوا۔ اس لیے کچھ احتساب اس کا بھی کریں کہ لاالٰہ کی وارث یہ سرزمین آج کتنے فتنوں کی زد میں ہے۔ روزوشب معصوم کلمہ گو مسلمانوں کا لہو اس مٹی میں جذب ہو رہا ہے۔ ہم اللہ کی حدوں کو توڑتے رہے اور آزمایشوں کے پھندے سخت ہوتے رہے۔ شب قدر کی نعمت (پاکستان) کی ہم نے قدر نہ کی تو شقاوت اور بدبختی ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی۔ آج نہ گھر محفوظ ہیں نہ سرحدیں۔ نہ قومی حمیت باقی ہے نہ انسانی جان کی کوئی قیمت۔ یہ سلامتی والی رات ہمارے لیے یاد دہانی ہے کہ پھر سلامتی کی طرف پلٹیں۔ ایمان کی سلامتی، کردار کی سلامتی، دلوں کی سلامتی، گھروں کی سلامتی، ملک و ملّت کی سلامتی۔ اس سلامتی کا پیغام شب قدر میں مضمر ہے کیونکہ خود مالکِ کائنات نے اس کو سلامتی والی رات کہا۔

ہمارا مادی ارتقا ، ہمارے روحانی ارتقا سے وابستہ ہے۔ اسی سے ہمارے تہذیب و تمدن کا ارتقا وابستہ ہے۔ یہ نورانی رات ہمیں مایوسیوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں پھر اسی نور کی طرف دعوت دے رہی ہے جو چودہ سو برس قبل جب چمکا تو عرب و عجم غلام ہوگئے۔

یہ عظیم ملاے اعلیٰ سے ربط و تعلق کی رات ہے۔ جبریلِ امین ؑ فرشتوں کے جھرمٹ میں ایک بار پھر اُتریں گے۔ اس سلامتی کی رات میں ہم اپنے قلب اور روح کو اتنا بیدار کرلیں کہ ان کے اُترنے کو محسوس کرسکیں۔ اللہ کرے اس رمضان اور لیلۃ القدر کے اثرات ہمارے عمل سے اس طرح ظاہر ہوں کہ پوری معاشرتی زندگی کے لیے قوتِ متحرکہ بن جائیں ؂

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف