April 19th, 2024 (1445شوال10)

مسئلہ کشمیر، عصرِ حاضر کے تناظرمیں

لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان
کشمیر،آزادی ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔اکثر مسئلے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حل ہوجاتے ہیں یا پھر ختم ہو جاتے ہیں۔لیکن کشمیر کا مسئلہ ،ایک ایسا مسئلہ ہے جوابھی تک حل تو نہیں ہوا مگر ختم بھی نہیں ہوا۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اور اجاگر ہوتا جارہاہے۔آج بھی عصرِ حاضر کے عالمی مسائل میں مسئلہ کشمیر اپنی اہمیت اور سنگینی کے لحاظ سے سرِ فہرست ہے۔ اگست1947ء میں پاکستان اور بھارت کے قیام کے وقت،ہندوستان سے ملحق آزادریاستوں کویہ آپشن دیاگیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرلیں ۔کیونکہ اب ان کا آزادانہ حیثیت میں survivalکرنا مشکل ہی نہیں،ناممکن بھی ہوگا۔
سلہٹ اور ’’سرحد‘‘ میں اس مقصد کے لئے ریفرنڈم ہوا اور یہاں کے عوام کی اکثریت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں رائے دی۔لیکن کشمیرمیں بھارت نے اپنی فوج اتادی اور کسی ریفرنڈم کے بغیر ہی یہاں کے راجہ حکمران سے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کروا دیا۔ اس پر کشمیری مسلمان سراپااحتجاج بن گئے۔بھارتی فوج نے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑدیئے۔ اس صورتِ حالات سے مجبور ہو کر پاکستان نے ،اپنے مسلمان بھائیوں کو بھارتی فوج ظلم وستم سے بچانے کے لئے اپنی فوج کشمیر میں بھیج دی۔ کشمیری مسلمانوں نے پاکستانی فوج کا بھر پور ساتھ دیا۔قریب تھا کہ پورا کشمیر ،بھارتی تسلط سے آزاد ہو جاتا،بھارت نے خود اقوامِ متحدہ پہنچ کر دھائی دی اور وعدہ کیا کہ جنگ بندی کروائی جائے تاکہ کشمیر یوں کو خودارادیت کا حق دیا جاسکے۔اقوامِ متحدہ نے ضمانت دی کہ کشمیر کو دونوں ملکوں کی فوج سے خالی کروا کر، آزادانہ استصواب کروایا جائے گا۔
بھارت نے کشمیرسے فوج نکالنے میں لیت ولعل سے کام لیا اور اب تک لے رہا ہے۔کشمیر میںآزادانہ ریفرنڈم کے راستہ میں بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی ،سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔بھارت کو اندازہ ہے کہ آزادانہ ریفرنڈم میں فیصلہ اس کے خلاف آئے گا۔اس لئے یہ اس وقت کا انتظار کررہا ہے جب کشمیر میں مسلمان اقلیت میں چلے جائیں۔اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بھارت کشمیر میں،ایک طرف مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہا ہے تودوسری طرف ہندوؤں اور سکھوں کولالا کر کشمیر میں بسا رہا ہے۔لیکن 67 سال ہونے کو ہیں وہ اس مشن میں بھی ناکا م رہاہے۔کیونکہ کشمیری مجاہدین اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنے مسلمان بھائیوں کا تحفظ کر رہے ہیں ،پھر ان حالات میں کون باہر سے آکر کشمیر میں بسنے کو تیا ر ہوگا۔اپنی اس ناکامی پر بھارت پریشان ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی اس ضد اور ہٹ دھرمی پر،عالمی برادری اپنی جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو اقوامِ متحدہ بھی بے حسی اپنائے ہوئے ہے۔بلکہ ان تینوں،ہم پیالہ وہم نوالہ قوتوں نے مل کر پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف ایک اور گہری سازش کا جال بچھا دیا ہے۔وہ یہ کہ جموں ،کشمیر ،وادی،لداخ اور گلگت و بلتستان کے صوبوں کے وفاق کے نام پرکشمیری مسلمانوں کے ایک گروپ سے ایک آزاد جمہوری اورسیکولر ریاست کانعرہ بلند کروادیا گیاہے۔1988ء سے کشمیر میں، اس تصور پرباقاعدہ عمل کا آغاز ہوا۔ دراصل بھارت یہ چاہتا ہے کہ کشمیر اگر اس کے ساتھ نہ آئے تو اس کو پاکستان کے ساتھ بھی نہیں جانا چاہئے۔کیونکہ اس صورت میں بھی پاکستان اور مسلمانوں کویقینی نقصان پہنچے گا۔ اس نقصان کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے۔ اس کا اندازہ درج ذیل نکات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
*بھارت 70سال کے طویل عرصہ میں،کشمیری مسلمانوں کو پاکستان کے خلاف نہیں کر سکا۔ لیکن ’’آزاد ملک‘‘ کشمیر کا فارمولہ یہ کام 15سال میں کر دکھائے گا۔لہٰذا اس عرصہ کے بعد کا ریفرنڈم الحاق کے خلاف اور ’’آزادی‘‘ کے حق میں ہو گا۔ان کو پاکستان کی غلامی سے ڈرایا جائے گا۔اس طرح پاکستان سراسر خسارے میں رہے گا۔
*بھارت ،کشمیر پر قبضے میں ناکامی کے بعد چاہتا ہے کہ کشمیر ایک آزادملک بن جائے تاکہپاکستان مضبوط نہ ہونے پائے ،گلگت وبلتستان اور ’’آزاد کشمیر ‘‘ بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔مشرقی پاکستان کو اس نے پہلے ہی الگ کر دیا ہواہے۔
*اس طرح بھارت کو سرخروئی ملے گی اور وہ اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا ممبر بن جائے گا۔ بھارت وہاں عالمی صیہونی استعمار کا آلہ کار بن کر،امتِ مسلمہ کے مفادات کو نقصان پہنچائے گااور اسرائیلی مفادات کی وکالت کرے گا۔
* ’’آزاد ملک کشمیر‘‘ کی تحریک کے نتیجے میں کشمیری مسلمان منقسم ہو جائیں گے۔جس سے پاکستان کے مؤقف پر زد پڑے گی۔اس طرح بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت کم ہو جائے گی۔
*کشمیر ’’آزاد ملک‘‘ کی حیثیت سے خودمختار نہیں بن پائے گا اور بنگلہ دیش کی طرح ،بھارت کا دستِ نگر ہو جائے گا۔کیونکہ ’’آزادملک‘‘ کی سیاسی قیادت اور حکمران اپنے ذاتی مفادات کو ہی پیشِ نظر رکھیں گے۔لامحالہ اس کے لئے انہیں بھارت کی خوشنوودی درکار ہوگی ورنہ وہ قبضہ کرلے گا۔یوں یہ کمزور حکومت ،بنگلہ دیش کی طرح پاکستان کے خلاف استعمال ہوگی۔
*’’آزاد ملک کشمیر ‘‘پر بھارت کی کٹھ پتلی حکومت ،دریائی پانیوں پر،موجودہ بھارتی پالیسی جاری رکھے گی۔اس کے نتیجے میں پاکستان میں انرجی کے مسائل اور سنگین ہوجائیں گے اور اس کی زراعت بھی مزید تباہ ہو گی۔
*پاکستان بھارت سرحدی چپقلش میں ’’آزاد ملک کشمیر‘‘ غیر جاندار ہو جائے گابلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہو ۔اس طرح یہ ،پاکستان کے لئے دوسرا بنگلہ دیش بن جائے گا۔کیونکہ اس کی لیڈر شپ بھی اپنے ملک کی ’’آزادی‘‘ میں بھارت کی مرہونِ منت ہوگی۔
*کشمیر کے’’آزاد ملک‘‘ بننے کے بعد پاکستان اور کمزور ہو جائے گا۔بھارت خطے کا تھانے دار بنے گا اور پاکستان کو آنکھیں دکھائے گا۔
*ان حالات میں پاکستان کا انحصار،مغربی ممالک پر اور بڑھ جائے گا اوروہ پاکستان کے حکمرانوں کو دباؤ میں رکھیں ۔پاکستان کی یہ محتاجی زیادہ خطرناک ہوگی۔
ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے توپاکستان کے مفاد میں ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کا حل وہی ہے جو طے شدہ اصولوں کے مطابق ہو۔آخر کار اسکاٹ لینڈ،جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور میں بھی تواس طرح کا ریفرنڈم ہو چکا ہے۔بس عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے اور رائے عامہ اپنے مؤقف کے حق میں استوار کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لئے امتِ مسلہ کو متحد ہو کر اقوامِ متحدہ پر دباؤ بڑھاناہوگا ۔اگر کشمیریوں کو’’آزاد ملک‘‘نعرہ دے کر،یہاں کے مسلمانوں کو بھی منقسم کرنے کا راستہ اپنا لیا جائے تویہ بھارت سے دوستی اور پاکستان سے دشمنی کا رویہ ہوگا۔
مسئلہ کشمیر،چھ دہائیوں کے گزرنے کے باوجود،کشمیری مسلمانوں کے جذبہ جہاد کی بدولت ،آج بھی زندہ ہے۔ابھی 2014ء میں مقبوضہ کشمیر میں عام انتخابات کا ،ایک بار پھر جو ڈھونگ رچایا گیا ،اس میں بھارت کی حکمران پارٹی بی جے پی کو بری طرح شکست ہوئی ہے۔ 87سیٹوں پر اس کے امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے تھے،صرف 25جیت پائے ۔ان انتخابات کے دوران جب بھارتی وزیرِ اعظم ،کشمیر کے دورہ پر آئے تو ان کی آمد کے خلاف ہڑتال کی کال کے نتیجے میں پورا کشمیر بند ہو گیا ۔ اسی طرح ابھی پچھلے سال ہی بنگلہ دیش میں’’ ایشیاکپ ‘‘ منعقد ہوا ۔اس میں پاکستان نے بھارت کو ہرادیا۔بھارت کی ریاست اتر پردیش کی ایک یونورسٹی کے کشمیری مسلمان طلبہ نے جشن منایا تو 67طلبہ کو نہ صرف معطل کیا گیا بلکہ ان پر غداری کا مقدمہ بھی قائم کر دیا گیا۔
ان تمام واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عصرِ حاضر میں بھی کشمیری عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ وہ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔انہیں بھارت کی غلامی کسی صورت قبول نہیں۔آج بھی کشمیر کے مسئلے کا یہی حل ہے کہ کشمیریوں کوحقِ خودارادیت کا موقع دیا جائے تاکہ وہ اپنی آزادمرضی سے اپنے محفوظ مستقبل کے لئے پاکستان سے وابستہ ہو نے کا فیصلہ کر سکیں۔