March 28th, 2024 (1445رمضان18)

کرپشن فری پاکستان

سینیٹر سراج الحق

ملک میں معاشی، سیاسی ، انتخابی اور اخلاقی کرپشن کا ناسور قومی سلامتی کے لیے خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ بے انتہا غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی کی جڑ موجودہ کرپٹ سسٹم ہے جس کی وجہ سے بے انتہا معدنیات ، بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال جفا کش اور محنتی قوم کے باوجود غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہورہا ہے۔ آئین پاکستان میں عام شہری کو عزت کی روٹی، تعلیم، علاج اور رہائش دینے کی ضمانت دی گئی ہے مگر کرپٹ حکومتوں نے ان بنیادی حقوق سے شہریوں کو محروم کر رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں 12 ارب روپے روزانہ کرپشن ہورہی ہے گویا4380 ارب روپے سالانہ کی کرپشن ہورہی ہے۔ کرپشن کا یہ حجم ناقابلِ یقین ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خود سرکاری ادارے اس کی توثیق کرتے ہیں۔ پاکستان میں توانائی کے میگا پروجیکٹ مثلاََ بھاشا ڈیم 1335 ارب، داسو ڈیم 795 ارب، بُنائی ڈیم827 ارب، کالا باغ ڈیم 1060 ، پتن ڈیم 636 ارب ، تھا کوٹ 636 ارب اس طرح توانائی کے یہ سارے پروجیکٹ15289 ارب روپے سے مکمل ہوتے ہیں گویا اگرہم کرپشن پر قابو پا لیں تو سوا ڈیڑھ سال میں توانائی کے ان منصوبوں کے لیے رقم جمع ہوسکتی ہے۔

اسی طرح پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 7266 ارب کا ہے گویا ہم ڈیڑھ برس میں یہ بوجھ اتار سکتے ہیں۔کرپشن اور کرپٹ نظام کو زندگی اور بقا کرپٹ سیاست دانوں اور نوکر شاہی نے دی ہے۔ کرپشن کے خلاف بنائے گئے اداروں نے بھی ہمیشہ ان کو چھتری فراہم کی ہے۔ کرپٹ نظام کی وجہ سے جان بچانے والی ادویات تک میں ملاوٹ ہورہی ہے۔ لوگوں کو گدھوں کا گوشت کھلایا جارہا ہے۔ پہلے ہم دودھ میں پانی ملاتے تھے اور اب پانی سے دودھ بنانے کی گھٹیا ترین موجد بن گئے ہیں۔یہاں کالے دھن کو سفید کرنے کاکام بھی سرکاری سرپرستی مین ہوتا ہے۔ کرپشن فری پاکستان قومی تحریک کا ہدف کرپٹ نظام اور کرپٹ اشرافیہ ہے۔یہ ایک آئینی اور اخلاقی ذمے داری ہے کہ نیک نام اور باضمیر شخصیات اور جماعتیں اس تحریک کا حصہ بنیں اور یہ قومی تحریک اس وقت تک جاری رہے جب تک پاک سر زمین کرپشن اور اس کے پروردہ عوام کا خون چوسنے والوں سے پاک نہیں ہوجاتی۔

انتخابات کو دولت کا کھیل بنانے والے اربوں روپے خرچ کرکے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں اور پھر کھربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں پیسہ لگانے والے کرپٹ لوگوں کو ٹکٹیں بانٹتی ہیں۔ آئین کا دفعہ 62-63 کی سیاہی الیکشن کمیشن کا منہ چڑا رہی ہے۔ اخلاقی کرپشن کا حال یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے ادارے فحاشی روکنے کے بجائے فحاشی کی تعریف کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں جو ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت کے غضب کو بھڑکانے والی بات ہے۔ جو قوم ناموس رسالت پر لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتی ہے وہی قوم نبی اکرم کی اس تعلیم کو خود پامال کررہی ہے ’’جو خون اور گوشت حرام رزق پر پرورش پائے گا وہ جنت میں نہ جائے گا‘‘۔ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ کرپشن ختم کرنے کے لیے حکمرانوں کو اعلیٰ کردار کانمونہ بننا پڑے گا۔ اگر حکومتی اہل کار اور کرتا دھرتا حج اور عمریپر پیسے بنائیں گے تو بازار میں پکوڑے بیچنے والے سے خیر کی امید نہیں رکھی جاسکتی، بے حسی اور اللہ سے بغاوت کا یہ عالم ہے کہ زکوۃٰ عشر فنڈ سے اربوں روپے خور دبرد ہوتے ہیں۔ماضی کی حکومت کے ایک وزیر نے ٹی وی ٹاک شو میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اظہار کیا کہ: ’’کرپشن پر ہماری پارٹی کا بھی حق ہے‘‘۔ پیلی ٹیکسیاں، روزگار اسکیم، پڑھا لکھا پنجاب، تیل، گیس اور معدنی ذخائر جیسے منصوبوں میں سو ارب روپے ڈکار لیے جاتے ہیں۔

پاکستان کے قومی اثاثے مثلاََ پی ٹی سی ایل اور بینکوں کی جس طرح فروخت کیا گیا ہے کہ کوئی کمہار بھی اپنے گدھے کو ایسے نہیں بیچتا۔ ان اداروں پر پہلے غیر ترقیاتی اخراجات کابوجھ ڈال کر انہیں ناکام بنادیا جاتا ہے اور بیلنس شیٹ میں اثاثوں کی قیمت کم کی جاتی ہے۔ ایوب خان سے لے کر میاں نواز شریف تک اقتدار میں آنے کے لیے اعلان کرتے ہیں کہ سب کا احتساب ہوگا اور سرعام ہوگا۔یہی حکمران اقتدار میں آنے کے بعد انسداد کرپشن کے لیے نت نئے ادارے بھی بناتے ہیں۔ پولیس کے بعد اینٹی کرپشن، ایف آئی اے،پروڈا (PRODA)پوڈو(PODO) ایبڈو(EBDO) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، احتساب کمیشن اور نیب جیسے درجن بھر ادارے جن پر کثیر سرمایہ قوم کا خرچ ہوتا ہے مگران اداروں کو حکمران مخالفین کو ڈرا، دھمکا اور دبا کر اپنے ساتھ ملانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔منظور نظر لوگوں کو کیس کھولنے پر حکومت تلملا اٹھی ہے۔ نیب کے پاس 150 میگا کرپشن کیس فائلوں میں بند پڑے ہیں۔ ہر کرپٹ چاہتا ہے کہ اس کے بجائے دوسرے کا احتساب ہو۔آڈیٹر جنرل نے 4.2 ٹریلین روپے کے حسابات پر اعتراضات لگائے ہیں جو کئی سال سے غیر حل (unsettaled)ہیں۔

قومی وسائل کی کرپشن کو قانونی طور پر دہشت گردی اور غداری قرار دیا جائے۔ جنگ اور دہشت گردی کسی بھی ملک کے انفرااسٹرکچر کو تباہ کردیتی ہیں جب کہ کرپشن تو انفرا اسٹرکچر اور سماجی ترقی کو شروع ہی نہیں ہونے دیتی۔ قومی خزانہ لوٹے جانے کے سبب تعلیم، صحت، خواتین ا ور دیگر میدانوں میں ہماری سماجی ترقی شروع ہی نہیں ہوسکی اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان اس وقت 70 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ان تو قرضہ بھی اس لیے لیا جاتا ہے کہ سابقہ قرضوں کی قسط ادا ہوسکے اس اذیت ناک صورت حال کو بدلنے کے لیے متواتر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ عوام کو شعوری طور پر اس تحریک کا حصہ بننا چاہیے کہ یہ ملک و ملت کی زندگی اور بقا کی تحریک ہے۔ ہم اس تحریک کے دوران کرپشن کے خلاف گلوبل آپریشن بھی شروع کریں گے۔قومی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت کا بڑا حصہ سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے۔ اس لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔اس دولت کا مکمل سراغ لگانے اور اسے ملک میں واپس لانے کے لیے جماعت اسلامی ممتاز اور باکردار لوگوں پر مشتمل ایک قومی جرگہ بنائے گی جو بیرونی ممالک میں پوشیدہ لوٹی ہوئی دولت کا بتا لگائے گا اس کی واپسی کے لیے کوششیں کرے گا۔ قوم کو تحریک پاکستان کے جذبہ سے پاکستان کو بچانے کی تحریک کے لیے متحد ہونا پڑے گا کیونکہ اب پاکستان اور کرپشن ایک ساتھ نہیں چل سکتے!!۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت ہی قومی خرابیوں کی اصل جڑ ہوتی ہے لیکن روز قیامت ہم سب کو اپنا اپنا حساب دینا پڑے گا۔ اس روز دوسروں کی خرابیاں ہمارے لیے ڈھال نہ بن سکیں گے بلکہ خراب لوگوں کو نہ ٹوکنے اور نہ روکنے کا وبال ہم پر بھی ہوگا۔ لہٰذا ہم سب کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔

اپنی سابقہ کوتاہیوں پر اپنے ربّ سے گڑ گڑا کر معافی مانگنی چاہیے۔

سچے دل سے وعدہ کیا جائے کہ آئندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کام نہیں کریں گے۔

اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہنے کے بجائے یہ معاملات ان لوگوں کے سپرد کریں جو باضمیر اور با کردار ہوں۔