April 20th, 2024 (1445شوال11)

اقبال کی بصیرت سے رہنمائی

حبیب الرحمٰن چترالی

علّامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ اپنی دانش کے آئینے میں ایک بے مثل مبلّغ ہیں جنھوں نے شاعری کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر کے اندر آزادی کی روح پھونکی جس کی مثال عصرِحاضر کے ذرائع ابلاغ، باوجود اپنی بے پایاں جدت و وسعت کے اور آزادی کے بلند بانگ نعروں کے پیش نہیں کرسکتے۔

اس وقت اہلِ پاکستان اپنی آزادی کی ۷۰ویں سالگرہ مناتے ہوئے حقیقتاً مصورِ پاکستان کے غیرمعمولی ابلاغی کردار کے سبب اُن کے زیراحسان ہیں۔ جب ہندستان پر مسلمانوں کا طویل دورِ حکمرانی ختم ہورہا تھا، اس مایوس کن صورتِ حال میں مسلمانوں کے ملّی وجود کو جن دماغوں نے سہارا دیا، اقبال اس قافلے کے شہ دماغ ہیں۔ اُن کے افکار نے مسلمانوں کو نفسیاتی اور ذہنی پسپائی سے روکا اور ایک ایسی عمارت کو جو اسلام کے نام پر کھڑی تھی، اس سے پہلے کہ انہدام کا شکار ہوتی، اس خطرے سے نکالا، پشتیبانی کی اور بچالیا۔ اقبال کا یہ کارنامہ اتنا عظیم ہے کہ اس سے خود ایک تاریخ مرتب ہوتی ہے‘‘۔ (شورش کاشمیری، فیضانِ اقبال، الفیصل ناشران، ص ۲۰)

اقبال کی دانش و بصیرت کی گہرائیوں کے آئینے میں دیکھا جائے تو وہ اپنے بلندپایہ افکار اور ذرائع ابلاغ شعرونثر کے باوصف مسلمانوں کے اندر ماضی کے آئینے میں روشن مستقبل کی روح پھونکنا چاہتے تھے، جو ریاست مدینہ کے آئیڈیل اور اسوئہ حسنہ کی صورت میں اُن کے سامنے موجود تھا  ؎

دل بہ محبوبِ حجازی بستہ ایم

زیں جہت بایک دگر پیوستہ ایم

(ہم نے اپنا دل محبوبِؐ حجازی سے لگایا ہے۔ اس لحاظ سے ہم ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔)

ریاستِ مدینہ کا ماڈل اور پاکستان

ایک اسلامی نظریاتی ریاست کا پاکیزہ ابلاغ علّامہ اقبال نے ۸۷سال قبل خطبہ الٰہ آباد کے دوران ۱۹۳۰ء میں کیا تھا، جب وہ کُل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں صدارتی خطبہ   پیش فرما رہے تھے: ’’میں یہ دیکھنا پسند کروں گا کہ پنجاب، شمال مغربی سرحد، صوبہ سندھ اور بلوچستان ایک خودمختار ریاست میں ضم ہوں جو برٹش ایمپائر کے اندر ہوں یا اس سے باہر۔ ایک مستحکم    شمال مغربی ریاست کی تشکیل مجھے مغربی ہندستان میں مسلمانوں کا مقدرِ حتمی دکھائی دے رہا ہے‘‘۔

جب کُل ہند مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اقبال کی یہ تجویز منظرعام پر آئی، تو ہندوئوں اور انگریزوں نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ نہرو کمیٹی نے اسے مسترد کیا اور برطانوی وزیراعظم جیمز رمزے میک ڈونلڈ نے کہا: ’’اقبال نامی ایک شاعر نے متحدہ ریاست ہندستان کے لیے کی جانے والی ہماری کاوشوں پر پانی پھیر کر تباہ کر دیا ہے‘‘۔

دوسرے دن ٹائمز لندن نے اداریے میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ ’’یہ مشرقِ وسطیٰ ، ایران، افغانستان اور روسی ریاستوں پر مشتمل مسلم ریاست متحدہ کے احیاے ثانی کا خواب ہے‘‘۔ (مکرر اشاعت: Time Magazine، ۱۳؍اگست ۲۰۰۷ء)

دورِ غلامی میں اقبال کی شاعری نے دلوں کو فتح کیا تھا۔ خود اقبال فرماتے ہیں: ’’میری شاعری اسلامی تفکّر اور قرآنی فقہ کی تعبیروتفسیر ہے۔ اس کا آرٹ کے مغربی تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘ (فیضانِ اقبال، ص ۲۲۰)۔ شعر کے ذریعے آزادی کا پیغام دراصل اسلام کا پیغام تھا، کیوں کہ ہندستان کے مسلمانوں کی محض سیاسی و اقتصادی بہبود ہو اور حفاظت اسلام کا عنصر اس میں شامل نہ ہو، تو اقبال کے نزدیک مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ (ایضاً، ص ۲۷۱)

جس وقت اقبال مسلمانانِ ہند کے لیے آزاد اسلامی وطن کا مطالبہ کر رہے تھے، اس وقت مسلمان غلامی کی چکّی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے، جو ڈیڑھ صدی سے اُن پر مسلط تھی۔ ہندو، انگریز استعمار کے سہارے مسلمانوں سے اپنے ہزار سالہ دورِ غلامی کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور اسپین کی طرح برصغیر سے مسلمانوں کے خاتمے کا خواب دیکھ رہے تھے۔تب اقبال نے مسلمانوں کو اس طرح بیدار کیا کہ   ؎

اِک ولولۂ تازہ دیا مَیں نے دلوں کو

لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند

اقبال، اسوئہ حسنہ کی روشنی میں یہ جانتے تھے کہ ایمان اور ذوقِ یقیں ہی وہ قوت ہے، جو ۷۵فی صد ہندو اکثریت اور انگریز استعمار کے چنگل سے اُن کو آزادی دلا سکتی ہے، ورنہ مسلمانوں کو تائید ایزدی اور نصرتِ خداوندی نصیب نہیں ہوسکتی تھی   ؎

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

اقبال ، قرآن کے زیرسایہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اسوئہ حسنہ کی روشنی میں اُمت مسلمہ کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔ مکہ مکّرمہ اور حرمِ کعبہ کو مسلمانوں کی سیاسی اور معاشرتی ترتیب میں اہم مقام حاصل ہے۔اسی مرکز کے تحت وہ مسلمانوں کو اکٹھا اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار دیکھنا چاہتے تھے۔ اُن کی فکر کی بنیادوں کو یوں سمجھا جاسکتا ہے:

    ٭  اسلام ایک زندہ قوت ہے، لیکن محدود دور کے سوا کبھی اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا گیا۔

    ٭  توحید ہی وہ تصور ہے جو انسان کا اپنے رب سے تعلق قائم کرتا اور ماسوا کی اطاعت کو ختم کرتا ہے۔

    ٭  رسالت مآبؐ خدا اور بندے کے درمیان حقوق کے تعین کا ایک ذریعہ ہیں جس سے اُمت تشکیل پاتی اور پروان چڑھتی ہے۔ (فیضانِ اقبال، ص ۲۱)

اقبال کے محرکاتِ فکر اسی سانچے میں ڈھلے تھے، جس کے نتیجے میں قدیم سے اُس نے عرفان حاصل کیا اور جدید سے فیض۔ بدقسمتی سے اقبالؒ کے کلام کے علمی اور جدید فکری پس منظر اور  نصب العین کو سمجھنے کی طرف توجہ کم رہی۔ اس کے لیے جو علم درکار تھا اور یہ متاع، جدید تعلیم کی مہربانی سے کم سے کم دستیاب ہے۔ (فیضانِ اقبال، ص ۱۳)

اے کہ می نازی بہ قرانِ عظیم

تا کجا در حجرہ می باشی مقیم

درجہاں اسرارِ دیں را فاش کن

نکتۂ شرعِ مبیں را فاش کن

کس نہ گردد درجہاں محتاج کَس

نکتۂ شرعِ مبیں این است و بس

(اے وہ بندے! جو قرآنِ عظیم پر ناز کرتا ہے، تُو کب تک اپنی ڈیوڑھی میں گوشہ نشین رہے گا۔ اُٹھو! دین مبین کے اسرار دُنیا پر فاش کرو اور اُن کے سامنے شرعِ مبین کو آشکارا کر دو تاکہ اس جہاں میں انسان دوسرے انسان کا محتاج نہ رہے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے شریعت مبین کا)۔

خوش قسمتی سے ’قدیم‘ سے عرفان حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حصولِ علم کی تلاش میں برطانیہ کے دورے اور قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے اقبال کو علمِ جدید سے فیضان حاصل کرنے کا بھی موقع فراہم کیا۔ وہ مغربی علوم کے شعلوں میں اور جدید نظریات کے الائو میں اُتر کر کندن بن گئے تھے۔ بجاطور پر اُن کا دعویٰ تھا  ع      کہ مَیں اس آگ میںڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل

میکیاولی کا شاطرانہ وژن اور مغرب

مغرب نے اپنے تاریک اَدوار (Dark Ages)کے ایک ہزار سال کے ناگفتہ بہ تجربات کے بعد آسمانی اقدار اور خدائی مذہب (Devine Religion) سے جان چھڑانے کے لیے سیکولرزم کو اپنی پناہ گاہ قرار دیا، کیوں کہ وہ خودساختہ عیسائی مذہبی طبقے کی ناروا سختیوں سے   تنگ آچکےتھے اور بالآخر انھوں نے سیاست اور مذہب کو دو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر دیا۔ سولھویں اور سترھویں صدی کے اندر مغربی دانش وروں نے اس نئے نظریے کے تحت نشاتِ ثانیہ اور صنعتی انقلاب کی راہ ہموار کی۔ معروف مصنف ہاروے ککس اپنی کتاب The Secular City میں نکولومیکیاولی کو انقلابِ فرانس اور نشاتِ ثانیہ کا اصل بانی قرار دیتے ہیں، جو شاطرانہ سیاست کے بانی سیاست دان تھے۔ اقبالؒ نے اُن کی زہرناک سیاسی چال بازیوں اور خدا دشمن نظریات کے سبب میکیاولی کو ’مرسلے از شیطان‘ یعنی شیطان کا بھیجا ہوا پیغمبر قرار دیا تھا کیوں کہ وہ قومی ریاستوں (National States) کا اوّلین نظریاتی پرچارک تھا، اور اس نے بادشاہوں اور رعایا کو مستقل کش مکش میں مبتلا کرنے والی بدنامِ زمانہ کتاب The Prince لکھی۔

نکولو میکیاولی (۱۴۶۱ء- ۱۵۲۹ء) کے شاطرانہ وژن اور مطلق العنان آزادی کے نام پر مغرب نے قومی ریاست (Nation State) کے تصور کو پروان چڑھایا۔ اس طرح مغرب جغرافیائی سرحدوں کے تقدس اور وطن پرستی کا اسیر ہوکر آسمانی اقدار اور توحیدی افکار سے محروم ہوگیا   ؎

گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ

آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد

اقبالؒ نے رُموز بے خودی میں میکیاولی کے ابلیسی افکار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس الحاد کے مقابلے میں عیسائیت کی بے بسی کو موضوعِ سخن بنایا:

اُسقُف از بے طاقتی درماندۂ

مہرہ ہا ازکف بروں افشاندۂ

قوم عیسیٰ بر کلیسا پازدہ

نقدِ آئین چلییا وازدہ

دہریت چُوں جامۂ مذہب درید

مرسلے از حضرتِ شیطاں رسید

(لاٹ پادری (اُسقُف) اپنی بے طاقتی کے باعث عاجز اور بے بس ہوکر رہ گیا۔ اس نے سارے مہرے ہاتھ سے پھینک دیے۔ یوں مسیحیت کے پیروکاروں نے کلیسا کو ٹھکرا دیا اور مذہب سے دُور ہوگئے۔ نتیجتاً دہریت والحاد نے مذہب کا لباس پھاڑ ڈالا کیوں کہ اُن کے پاس شیطان کے دربار سے ایک پیغام بر آن پہنچا تھا)۔

آں فلا رنساویٔ  باطل پرست

سرمۂ اُو دیدۂ مردم شکست

نسخۂ بہرِ شہنشہاں نوشت

در گلِ ما دانۂ پیکار کشت

(یہ تھے فلارنس (اٹلی) کا وہ باطل پرست (میکیاولی) جس کے سُرمے نے انسانوں کی آنکھوں کو پھاڑ ڈالا (اُن سے نُورِ بصیرت چھین لیا)۔ اس شخص نے بادشاہوں کے لیے ایک کتاب (The Prince) لکھ ڈالی اور ہماری اِس رُوے زمین پر جنگ اور خوں ریزی کا بیج بو دیا)۔

اقبال مرحوم نے اس شاطر انسان کو بُت تراش آذر سے تشبیہ دی کیوں کہ اس کی قوتِ فکر نے وطن کو معبود قرار دیا اور مذموم چیز کو محمود بنا کر پیش کیا۔ حیلہ گری اور فریب کاری نے سیاسی فن کی صورت اختیار کرلی اور دھوکا و دجل مصلحت بن گئی۔ یوں زمین پر اقتدار کے حصول کے لیے مسیح کے پیروکار آسمانی اقدار سے دست بردار ہوگئے اور مذہب ایک پرائیویٹ معاملہ بن گیا اور اجتماعی اداروں سے مذہب کا نام و نشان مٹا دیا گیا، اور اس کو انھوں نے روشن خیالی، آزادی کا نام دے دیا کیوں کہ انھوں نے اپنی معاشرتی زندگی سے خدا کو بے دخل کر دیا تھا۔ یہ نشاتِ ثانیہ کی تحریک کا حقیقی پس منظر تھا جس کا محور وطن پرستی کا بُت اور نسلی و سیاسی لحاظ سے قومیتوں کا افتراق تھا جسے اقبالؒ نے مغرب کے تراشے ہوئے تازہ خدائوں سے تعبیر کیا ہے  ؎

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

اقبالؒ وطنیت کے اس فروغ پذیر نظریے کو، مغرب کی جانب اسلام کی روحانی پیش رفت قرار دیتے ہیں اور حقیقی اسلامی نظریے کی قوت سے اِن بتوں کو پاش پاش کرنا چاہتے ہیں۔ علمی دُنیا میں اقبال کو ایسے بُت شکن کی تلاش تھی۔ ۲۹مئی ۱۹۳۳ء میں جب سابق صدر دارالعلوم دیوبند    مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا انتقال ہوا تو اس عظیم فلسفی کے تعزیتی اجلاس کے موقعے پر اقبال نے محدث کشمیری کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ فکرِ اسلامی کے احیا کے تجدیدی کام کے لیے شاہ صاحب کی شخصیت میرے پیش نظر تھی اور میں نے آپ کو ڈابھیل سے لاہور منتقل ہونے کا مشورہ دیا تھا مگر زندگی نے وفا نہ کی۔ علامہ اقبالؒ نے محدث کشمیری سے علامہ فخرالدین عراقیؒ کے قلمی مخطوطے کی نقل بھی حاصل کی تھی اور خط و کتابت کے ذریعے غایۃ الامکان فی درایۃ المکان  کو سمجھا۔ سائنسی اور روحانی تجربات پر مبنی اس کتاب کے مصنّف علامہ فخرالدین عراقی غالباً نصیرالدین طوسی کے ہم عصر تھے، جن کی کتاب سترھویں صدی میںEuclid  کے نام سے پڑھائی جاتی تھی اور جو ۱۵۹۴ء میں روم میں چھپ گئی تھی۔ اپریل ۱۹۲۹ء میں حیدرآباد دکن میں چھپنے والے ایک مضمون میں اقبال نے علامہ عراقیؒ کی کتاب پر تبصرہ کیا تھا۔

نشاتِ ثانیہ کی تحریک اور اقبالؒ

نشاتِ ثانیہ تاریخ یورپ میں ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ جدید یورپ کی پس پردہ فکری تبدیلی اسی تحریک کے سر ہے۔ نشاتِ ثانیہ کے بعد کا یورپ ماضی کے یورپ سے قطعی مختلف ہوگیا۔ اس حد تک کہ نئے یورپ کے تمام ادارے بشمول کلیسا، مذہب، سیاست، اخلاق اور معیشت، کلچر، رسم و رواج اور سائنس سبھی کچھ بدل گئے۔ اس تحریک ِ احیا کے نتیجے میں انفرادی   اور اجتماعی رویے شکست و ریخت سے دوچار ہوگئے۔ مذہبی فکر میں اس کے نفوذ کے بعد عیسائیت ایک نئے زمینی مذہب کے رُوپ میں ڈھل گئی۔ اس لیے کہ اس کی پشت پر نکولو میکیاولی کی شرانگیز استعماری فکر کے علاوہ اہم ترین دانش وروں کا بھی ہاتھ تھا، جنھوں نے اصلاحِ مذہب (Reformation) کا نعرہ بلند کیا۔ اُن میں اصلاح مذہب کے علَم بردار اور پروٹسٹنٹ فرقے کے روح رواں مارٹن لوتھر (۱۴۸۴ء-۱۵۶۴ء)، زونگلی (۱۵۳۱ء، سوئٹزرلینڈ)، ابراسمس مانڈس (۱۴۶۶ء-۱۵۳۶ء، برطانیہ)، اور کولون (م:۱۵۶۴ء، جنیوا) شامل تھے۔ مقاصد کے اعتبار سے یہ تحریک عیسائیت کو بظاہر اس کی ’اصل‘ فراہم کرنا چاہتی تھی، مگر اس کے نتیجے میں مذہب ہی منہدم ہوگیا۔

ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ قومی ریاست کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے نظریے کا سولھویں اور سترھویں صدی میں ہدف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا آسمانی مذہب تھا، اور میکیاولی کی شرارت اور منفی ذہانت پر مبنی سیاست کے نتیجے میں تمام عیسائی آہستہ آہستہ اپنے ’اصل‘ یعنی وحی کے فیضان سے محروم ہوتے گئے اور قیصر کو خدا کی خدائی میں شریک بنا لیا۔ بدقسمتی سے ۲۰ویں صدی تک روے زمین پر شاذ ہی ایسا عیسائی بچ گیا ہو جو انجیل کی اصل تعلیمات سے واقف ہو۔ ایک خودساختہ زمینی مذہب نے آسمانی مذہب کی جگہ لے لی اور ۲۱ویں صدی میں مذہب اسلام کو امپریلزم نے اپنا ہدف بنالیا۔ انیسویں صدی کے اختتام پر علامہ اقبالؒ نے یہ بھانپ لیا تھا کہ کہیں لاٹ پادری کے پیروکاروں کی طرح مسلمان بھی اپنے مذہب اور وحی کے فیضان سے محروم     نہ ہوجائیں، جو پرلے درجے کی گمراہی ہوگی اور روے زمین پر اللہ کی وحدانیت گہنا جائے گی۔ اس لیے اپنے شعرو نثر پر مبنی ابلاغی پیغا م کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو جھنجھوڑا اور انھیں حقیقی آزادی کا درس دیا اور یورپی افکار کا طلسم توڑا اور ’روشن خیالی‘ کے دعوے کو طشت ازبام کیا۔

۱۷ویں صدی میں یورپ میں شروع کی گئی تحاریک: اکرامِ انسانیت (Humanism)، عقلیت (Rationalism) اور افادیت (Utilitarianism) دراصل انسانیت کو دجل و فریب کے ذریعے اللہ کی حاکمیت کے خاتمے اور عبدیت کے آسمانی تصور کو مٹانے اور اللہ کے مقام پر انسان کو کھڑا کرنے اور عقل کو وحی کا متبادل کے طور پر لانے اور افادیت پرستی کے نام پر شریعت کے حلال و حرام کے لیے مقرر کردہ قیود سے آزادی کی تحریکیں تھیں جنھیں خوب صورت اصطلاحات کے پیرایے میں متعارف کروایا گیا اور اقوامِ عالم کو، حقوق کے چارٹر کے طور پر ان اُقدار کا خوگر بنایا گیا۔اس طرح انسان کو خدا کے بجاے خود انسان اور اس کی عقل کا غلام بنالیا گیا اور انبیا ؑ کی جگہ پر انسانی خواہشات کی غلامی کو اختیار کرنے کی راہ سجھائی گئی۔ یہ اُن ائمہ ضلالت کا کارنامہ تھا کہ چار صدیاں گزرنے کے باوجود انسانیت، سیکولرزم کے گمراہی کے اِن اسباب کا اِدراک نہ کرسکی، جس کا اقبالؒ نے بروقت اِدراک کرلیا تھا۔اس لحاظ سے فکروعمل میں اسلام کی تہذیبی بالادستی کے لیے متحرک قافلے کے سرخیل ہونے کا سہرا اُسی داناے راز کے سر ہے، جو اُسوئہ رسولؐ کے شیدا تھے۔ اُن کا پیغام تھا: ’’یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کوئی کلیسائی نظام نہیں بلکہ یہ ایک ریاست ہے، جس کا اظہار رُوسو سے بھی کہیں پیش تر ایک ایسے وجود میں ہوا، جو عقدِاجتماعی کا پابند ہو۔ (خطبۂ الٰہ آباد، ۱۹۳۰ء)

سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

خاور کے ثوابِت ہوں کہ افرنگ کے سیّار

پِیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں

نے جدّتِ گفتار ہے، نے جدّتِ کردار

ہیں اہلِ سیاست کے وہی کُہنہ خم و پیچ

شاعر اسی افلاسِ تخیّل میں گرفتار

دنیا کو ہے اُس مہدیِ برحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہِ زلزلۂ عالمِ افکار

عیسائیت پہلے بھی یونانی نظریات کے سہارے چل رہی تھی۔ عیسائی لبادے میں ملبوس یہ یونانی خیالات سیکولر یلغار کے نتیجے میں عصرحاضر کا ساتھ نہ نبھا سکے تو انھیں متروک کرنا پڑا جس کی زد عیسائیت پر پڑی، اور اب نشاتِ ثانیہ جدیدیت کا رُوپ دھار کر اکیسویں صدی میں اسلام کے ساتھ نبردآزما ہے جس کا بنیادی مقصد اسلام کو بطور ضابطۂ حیات مشکوک قرار دینا ہے۔ پس منظر اپنے پیش منظر کو خود متعین کرتا ہے۔ نشاتِ ثانیہ کا پس منظر یورپ کے معاشرتی اداروں سے مذہبی افکار کا خاتمہ کر کے انھیں مکمل سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا تھا، جب کہ جدیدیت کا پیش منظر مسلم دنیا کے معاشرتی اور سماجی اداروں، معیشت، معاشرت و سیاست اور ابلاغیات سے مذہبی فکر کو علیحدہ کرکے انھیں سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا اور عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی فرد کا ذاتی معاملہ  قرار دے کر انفرادیت تک محدود کرنا ہے۔ عصرِحاضر میں ماضی کی تحریک عقلیت و انسان دوستی کی تحریکوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ مذہبی اقدار و شعائر کا تمسخر اُڑایا جارہا ہے۔ علما کے مقابلے میں نامور شخصیات اور اینکرز کو توقیر دی جارہی ہے تاکہ مسلمان نظریاتی اقدار سے تہی دامن رہیں۔

اقبال کے نزدیک یہ آزادی اور جمہوریت کی علامات ہرگز نہیں ہوسکتیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی حیلہ گریاں ہیں جو جمہوری قبا میں تاریخ کے مختلف مراحل میں منظرعام پر لائی جاتی ہیں۔ ’خضرراہ‘ میں آزادی کی اس نیلم پری پر وہ اشعار پیش کرتے ہیں:

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر

شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب

تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

یہیں سے اقبال کے ہاں نظریاتی کے بجاے قومی ریاست اور وطنیت کی مخالفت کا دھارا پھوٹتا ہے اور وہ ’بہ مصطفےٰ برسان خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہیں اور  جذبۂ ایمانی کی قوت کے اظہار کو اس شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں  ؎

قلندر جُز دو حرفِ لا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا

فقیہہِ شہر قاروں ہے لُغَت ہاے حجازی کا

اقبال، علمی قیادت پر تنقید کے علاوہ غیرنظریاتی سیاسی قیادت کا بھی بھرپور احتساب کرتے ہیں اور محمد رسولؐ اللہ کو اصل قائد کے طور پر ’اسوہ‘ کی صورت میں سامنے لاتے ہیں، تاکہ اُمت مسلمہ کے جملہ قائدین آفتاب رسالتؐ کی حقیقی قیادت پر متحد ہوجائیں اور اُسی آفتاب کی کرنوں سے روشنی حاصل کریں ورنہ ڈُور کٹی پتنگ کی طرح اُمت سے اُن کا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور وہ   طوافِ کعبہ کے بجاے ’حرمِ مغرب‘ کے زائرین بن کر رہ جائیں گے   ؎

یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے

ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں

محترم سیّدابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں:’’اقبال اُن سیاسی زعما و قائدین کے رویوں پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہیں جو عالمِ اسلام میں قیادت و سیادت کے دعوے دار تو ہیں مگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کا کوئی قلبی و روحانی تعلق و رابطہ نہیں۔ (نقوشِ اقبال، ص ۴۶، طبع ۱۹۷۶ء)

فکرِ اسلامی کی تشکیل نو پر دیے گئے اپنے لیکچرز میں اقبال انھی علمی اور سیاسی زعما کا محاسبہ کرتے ہیں: ’’نجات دہندہ خود ہی بتدریج غلامی کی اُن زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں جن کا مشن اِن زنجیروں سے دوسروں کو آزادی دلانا تھا‘‘۔ (Speeches, Writings  &  Statements   of Iqbal ،اقبال اکادمی، ۲۰۱۵ء، ص ۱۱۷)

اس طرح اقبال نے ’آزادی‘ اور ’عبدیت‘ کے حسین امتزاج کا ایسا تصور پیش کیا تھا، جس سے انسان پر انسان کی خدائی کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور ظلم سے پاک ایک نئی دنیا کی تعمیر بھی۔  مولانا مودودی کے نزدیک بھی خرابی کی اصل جڑ یہی ہے، جس کی اقبال نے نشان دہی کی تھی۔ (تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان، ص ۲۴-۲۵)

اس بڑے مشن کی تکمیل کے لیے اقبال نے مولانا مودودی کو دعوت دے کر دارالاسلام پٹھانکوٹ بلایا اور ملاقاتیں کرکے فکر ِ اسلامی کے احیا، تحقیق اور رجالِ کار کی تیاری کے اداراتی خدوخال طے کیے۔ مارچ ۱۹۳۸ء میں مولانا مودودی حیدرآباد سے پٹھانکوٹ منتقل ہوئے اور اپریل کے مہینے میں علامہ اقبالؒ اس دنیا سے چل بسے___   اِنَّا لِلّٰہِ  وَ اِنَّا  اِلَیْہِ  رٰجِعُوْن    

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

علّامہ اقبال یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ مغرب کا مطلق العنان آزادی کا تصور، اسلام کے اُن تصورات سے ٹکراتا ہے جن سے کبھی مغرب ماضی میں قوت حاصل کرتا تھا:

ایک وقت ایسا تھا کہ یورپی افکار اسلامی دنیا سے روشنی اور قوت حاصل کرتے تھے مگر اب اسلام روحانی طور پر مغرب کی جانب متحرک ہے، کیوں کہ فطرت پر غلبہ پانے والی انسانی طاقت نے مغرب کو ایک نیا عقیدہ عطا کیا ہے۔( تشکیل جدید الٰہیات ، ص۶)

گمراہی کی طرف جانے والے مغرب کو دوبارہ اسلام کے افکار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے، اسلامی افکار کی تشکیلِ نو (Reorientation ) اقبال کے مدنظر وقت کی اہم ضرورت تھی کیوں کہ  اس مقصد کے حصول میں عیسائیت ناکام ہوچکی تھی۔ اقبال کے اِن لیکچروں کا مقصد بھی یہی تھا:

ہمیںاپنے ایمان کی تشکیل نو اور افکار کی تعمیرنو کی ضرورت ہے جس میں عیسائیت ناکام ہوچکی ہے۔ (ایضاً، ص ۶)

آزادی کے بعد یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ مغرب پرستی کے بجاے اسوہ حسنہؐ کی روشنی میں مغرب اور مغرب کی طرف دوڑنے والوں کی ہم نے کتنی رہنمائی کی ہے، جس کی طرف آزادی سے پہلے اقبال واضح نشان دہی فرما گئے تھے۔ فکروعمل کے میدان میں یہ وہ قرض ہے جس کی ادایگی ملت ِاسلامیہ کے ذمّے فرض ہے اور جس کے لیے اقبال نے اپنی زندگی وقف کی تھی اور ان زریں اصولوں کی بنیاد پر دنیا میں امن و استحکام آسکتا ہے، جس کی انسانیت متلاشی ہے:

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکرِخاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار

اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے