April 24th, 2024 (1445شوال15)

خودی

تحریر: شاہنواز فاروقی

اقبال کی شاعری ایک ایسی تہذیبی واردات ہے جس میں اسلام کی لازمانیت اور زمانیت کے ذائقے باہم آمیز ہوگئے ہیں۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ وہ کبھی اسلام کی زمانیت کو اسلام کی لازمانیت میں دریافت کرتے ہیں، اور کبھی اسلام کی لازمانیت کا جلوہ اس کی زمانیت میں دکھاتے ہیں۔ اس کے بغیر اقبال کی شاعری اہم تو ہوسکتی تھی مگر عظیم نہیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال کی شاعری میں اسلام کی زمانیت یا وقت کے تقاضوں کا غلبہ ہے، اور یہ بات ایک حد تک صحیح ہے۔ اقبال کی شاعری کے موضوعات، یہاں تک کہ ان کا اسلوب بھی امتِ مسلمہ کی ایک تاریخی اور تہذیبی ضرورت تھا۔ مثلاً اقبال کا ایک مستقل موضوع خودی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو خودی کے تصور پر گفتگو مسلمانوں بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کی ضرورت تھی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ برصغیر پر انگریزوں کے تسلط نے مسلمانوں کے ایک بڑے حصے میں یہ صورت حال پیدا کردی تھی کہ مسلمان اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ پر شرمندہ ہونے لگے تھے اور انہیں انگریزوں کے مذہب، ان کی تہذیب اور ان کی تاریخ میں خوبیوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اقبال یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ غلامی محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات تہذیبی اور تاریخی ہوتے ہیں، یہاں تک کہ غلامی افراد کیا اقوام کے ضمیر کو بدل دیتی ہے۔ چنانچہ اقبال نے کہا ہے

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اقبال اپنے وجود کی پوری قوت صرف کرکے مسلمانوں کو غلامی کے اثرات سے بچانا چاہتے تھے، اور جو لوگ غلامی کے اثرات کی زد میں آگئے تھے انہیں ان اثرات سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے خودی کے تصور پر بہت اصرار کیا، لیکن جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں اقبال کے یہاں خودی کا تصور یک جہت یاSingle Dimensional نہیں ہے بلکہ اس کے کئی پہلو ہیں۔ مثلاً اقبال کے بعض شعروں میں خودی کا تصور اَنا اور خودتکریمی یا Self Respect کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

مثلاً اقبال نے کہا ہے

خودی کی خلوتوں میں گُم رہا میں

خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں

نہ دیکھا آنکھ اٹھاکر جلوہ_¿ دوست

قیامت میں تماشا بن گیا میں

............

بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو

یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے

............

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

اقبال کے پہلے دو شعر دراصل اُن کی ایک رباعی ہیں، اور اس رباعی میں اقبال نے اس ہولناک تجربے کی نشاندہی کی ہے کہ انا پرستی اتنا سنگین مرض ہے کہ اگر دنیا میں انسان کو اس کی عادت پڑجائے تو میدانِ حشر تک اس کا تعاقب کرتی ہے۔ ہماری کائنات اور ہماری دنیا خدا کی نشانیوں اور اس کے جلووں سے بھری ہوئی ہے، لیکن انا مرکز یا Ego Centric شخصیت کو اپنی شخصیت کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ وہ ہر وقت اپنے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔

اپنے آپ میں مگن رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی یہ عادت اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ محشر میں بھی جہاں خدا کے جلووں کا اثر ہر طرف غالب ہوگا، انا مرکز شخص اپنے آپ میں ڈوبا ہوا ہوگا، اور یہ بات اس کو محشر میں تماشا بنادے گی۔ اس لیے کہ محشر میں گناہ گار سے گناہ گار شخص بھی اپنے خالق اور اپنے مالک کی جانب متوجہ ہوگا، یہاں تک کہ اسے اپنے قریب ترین رشتوں کا بھی خیال نہ ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خودی ایک سماجی، معاشی، نسلی یا نفسیاتی حقیقت ہے، اور اس پر اصرار ایک منفی تجربہ ہے۔ مغرب میں خودی کا تصور مختلف لوگوں کے یہاں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے، اور مغرب میں قوم پرستی یا نسل پرستی دراصل اجتماعی خودی پر اصرار کی مختلف صورتیں ہیں، اور ان کا اثر مشرق اور خود اسلامی معاشروں پر بھی پڑا ہے۔

اقبال نے رباعی کے بعد والے شعر میں عشق اور خودی کو متضاد تصورات کے طور پر استعمال کیا ہے اور بتایا ہے کہ عشق انسان کو بیکرانی عطا کرتا ہے، لیکن خودی یا اقبال کے اپنے الفاظ میں خود نگہداری انسان کو محدود کردیتی ہے۔ عشق سمندر ہے تو خود نگہداری ساحل ہے۔ یہاں بھی خودی کا تصور انا یا سماجی و نفسیاتی حقیقت کی علامت ہے اور اقبال کو اس کی ضرر رسانی کا شعور ہے۔ ”خودی نہ بیچ غلامی میں نام پیدا کر“ والے شعر میں خودی کے تصور کی سطح کچھ بلند ہوئی ہے اور خودی ایک سطح پر سیاسی اور دوسری سطح پر اخلاقی تصور یا ایک معیار بن کر سامنے آتی ہے۔

اقبال کو اس بات کا دکھ تھا کہ انگریزوں کے لائے ہوئے نظام کے تحت مسلمان چھوٹے چھوٹے مالی فائدوں مثلاً نوکری یا جائداد کے لیے اپنی عزتِ نفس نیلام کررہے ہیں اور وہ انگریزوں کی طرح بن جانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے فرزند کے ذریعے ملت اسلامیہ کو یاد دلاتے ہیں کہ ہمارے لیے غریبی شرم کا باعث نہیں بلکہ ہماری تہذیب میں وہ ہمیشہ ایک طرزِ حیات کے طور پر موجود رہی ہے، بلکہ اسے ایک قدر یا Value کا درجہ حاصل رہا ہے۔ لیکن اقبال کے یہاں خودی کا اسلامی تصور پوری آب و تاب اور جلال و جمال کے ساتھ موجود ہے۔

مثلاً اقبال نے کہا ہے

خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل

یہی ہے تیرے لیے اب صلاحِ کار کی راہ

............

خودی کا سرِ نہاں لاالہٰ الااللہ

خودی ہے تیغ فساں لاالہٰ الااللہ

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری

نہ ہے زماں نہ مکاں لاالہٰ الااللہ

یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند

بتانِ وہم و گماں لاالہٰ الااللہ

............

جوہرِ زندگی ہے عشق، جوہرِ عشق ہے خودی

آہ کہ ہے یہ تیغِ تیز سپردگی_¿ نیام ابھی

اسلام انسان کی عظمت کا جتنا قائل ہے دوسرے مذاہب اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن اسلام چاہتا ہے کہ انسان خرد سے گزرکر خدا تک پہنچ جائے۔ اور جب انسان خدا تک پہنچ جاتا ہے تو خدا سے تعلق اور اس سے محبت کی وجہ سے اس کی ذات بھی اہم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اسلام کا تصورِ خودی یہ ہے کہ اصل وجود یا اصل Existence خدا کا ہے۔ اسی کا حکم اور اسی کا ارادہ ہر طرف جاری و ساری ہے، چنانچہ انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ خدا کا اصل یا Real ہونا اور اپنا مجاز یا Appearance ہونا تسلیم کرلے۔ ایسا کرتے ہی انسان خودی کے حقیقی تصور تک پہنچ جاتا ہے۔

چنانچہ اقبال نے کہا ہے کہ خودی کا راز یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے۔ چنانچہ انا پرستی یا Ego Assertion کی ہر صورت ایک تلوار ہے، اور اگر انسان کے پاس حوالہ الااللہ کی ڈھال نہ ہو تو انا کی تلوار انسان کا قیمہ بنادے۔ لیکن فی زمانہ انا پرستی کے مظاہر صرف فرد کی ذات تک محدود نہیں۔ اقبال نے کہا ہے کہ فی زمانہ عقل زمان و مکان یعنی Time and Space کی مالا جپ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ جو کچھ ہیں زمان و مکان ہیں۔

لیکن اقبال نے بتایا ہے کہ زمان و مکان تو بیچارے خود اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں اور خالق کے سامنے مخلوق کے وجود کی کیا بساط! اللہ تعالیٰ جب چاہے زمان و مکان کو بے معنی بنا سکتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو زمان و مکان کی زنّاری ایک اجتماعی انا پرستی یا Collective Ego Assertion کی ایک صورت ہے۔ اسی طرح اقبال نے دکھایا ہے کہ مال و دولت اور رشتے اور تعلق کی محبتیں بھی وہم و گمان کے بتوں کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ خدا کی محبت کے سامنے ان کی کوئی حقیقت نہیں۔

اقبال نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ جس طرح زندگی کی اصل عشق ہے اور عشق کے بغیر زندگی زندگی نہیں بنتی، بالکل اسی طرح عشق کی اصل خودی ہے۔ یعنی جب تک عشقِ مجازی انسان کو خدا تک لے جانے والا نہ ہو، وہ عشق کہلانے کا حقدار نہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اقبال خودی سے کیا کام لینا چاہتے ہیں؟ اس کی تفصیل اقبال کے شعروں میں بکھری ہوئی ہے۔

مثلاً

خودی سے اس طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتی ہیں

یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ میں سمجھا

............

چڑھتی ہے جب فقر کی سان پر تیغِ خودی

ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ

............

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟

لیکن سوال یہ ہے کہ اقبال کے یہاں خودی کی بلند ترین سطح کیا ہے؟ اس شعر کا جواب اقبال کے دو شعر ہیں

خودی کی جلوتوں میں مصطفائی

خودی کی خلوتوں میں کبریائی

زمین و آسمان و کرسی و عرش

خودی کی زد میں ہے ساری خدائی