April 19th, 2024 (1445شوال10)

حجاب ہر عورت کا حق ہے

غزالہ عزیز

۔ یومِ حجاب کا پیغام

ستمبر کا مہینہ اپنے ساتھ شہید ’’مروہ الثر بینی‘‘ کی یاد دلاتا ہے جن کو تمام مسلم خواتین نے ’’شہیدہٓ حجاب‘‘ کا لقب دیا۔ ان کا جرم اس کے سوا کیا تھا کہ وہ شعارِ اسلامی حجاب کو اتارنا نہیں چاہتی تھیں ! غیر مسلم معاشرہ جس کو اپنی آزاد خیالی پر ناز ہے اور جو اپنے سیکولر اور لبرل ہونے کا ڈھول پیٹتے نہیں تھکتا، اس کو کپڑے کا ایک ٹکڑا برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ لہٰذا عین عدالت کے کمرے میں انہیں جج کے سامنے شہید کردیا گیا۔

کپڑے کا یہ ٹکڑا جس کو حجاب کہتے ہیں، مسلم خواتین کا شعار ہے لیکن متعدد لوگ جن میں مسلم اور غیر مسلم ہیں، اپنے، آپ کو سیکولر اور لبرل کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں وہ اس کے لیے نامناسب الفاظ اور ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کا خیال میں حجاب ظلم و ستم اور تقسیم کا نشان ہے۔ اسلام میں حجاب پر بحث و مباحثے کی گنجائش نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن مغربی ممالک میں حجاب اسلام کے بارے میں بحث کا ایک آسان ہدف سمجھتا ہے۔

حجاب کا عالمی دن ۴ ستمبر کا منایا جاتا ہے اس کا مقصد اس کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ یہ دن غیر مسلم خواتین کو بھی دعوت دیتا ہے کہ وہ روایتی حجاب پہن کر دیکھیں اور اس خوش گوار اثرات کو محسوس کریں۔ اس عمل سے یقیناََ مزید مذہبی برداشت پیدا ہوگی۔

 غیر مسلم معاشرے میں حجاب استعمال کرنے کی تحریک کی ابتدا نیو یارک میں ایک خاتون نے کی جس کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا۔ ’’فاطمہ خان‘‘ جس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے زریعے اس تحریک  کو منظّم کیا اور جس نے پوری دنیا میں مسلم اور غیر مسلم خواتین کو متاثر کیا۔

حجاب کا دن غیر مسلم خواتین کے علاوہ ایسی مسلم خواتین کے لیے بھی ایک موقع ہے جو عام طور پر حجاب استعمال نہیں کرتیں، حالانکہ اس کی افادیت سے واقف ہیں اور دل میں اس کو استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہیں لیکن بر سرعام استعمال کرنے میں جھجھکتی ہیں۔ فاطمہ خان بتاتی ہیں کہ جب وہ گیارہ سال کی عمر میں بنگلہ دیش سے نیو یارک آئیں تو ان کے ساتھ حجاب کے استعمال کے باعث برا سلوک روا رکھا گیا۔ وہ نیو یارک کے اسکول میں پڑھتی تھیں ۔ انھیں’’حجابی لڑکی‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب وہ مڈل اسکول میں تھیں تو انہیں ’’بیٹ وومن’‘‘ یا ’’ننجا ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ پھر ستمبر ۲۰۰۱ ء آیا اور اُس وقت وہ کالج میں تھیں تو انھیں اسامہ بن لادن یا دہشت گرد کہا جانے لگا۔ مغرب کا معاشرہ حجاب کے بارے میں انتہائی غلط فہمی کا شکار رہا لہٰذا انہوں نے اس کے لیے مثبت مہم چلانے کا سوچا۔ انہیں یقین ہے کہ ان کی مہم خواتین کے لیے مثبت اثرات کا سبب بنے گی۔ پوری دنیا میں اس بارے میں حمایت موجود ہے۔ برطانیہ ،آسٹریلیا، بھارت، فرانس اور جرمنی کے درجنوں افراد نے ان سے رابطہ کیا ہے۔

برطانیہ کی نوروچ یونیورسٹی کی اکیس سالہ طالبہ جیسی(jessy) روڈز ایک ایسی ہی غیر مسلم لڑکی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ان کی دوست نے انہیں حجاب پہننے کا موقع فراہم کیا، پھر اس کے بعد انہوں نے اس کا استعمال شروع کیا۔ جیسی(jessy) کے مطابق ان کی دوست نے انھیں اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ حجاب استعمال کرنے کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے اور ظاہری طور پر یہ ہر عورت کے لیے ایک حفاظتی حصار ہے۔ جیسی(jessy) ان ہزاروں غیر مسلم خواتین میں سے ایک تھیں جنہوں نے حجاب کے پہلے عالمی دن کے موقع پر حجاب پہنا۔ جیسی(jessy) بتاتی ہیں کہ پہلے دن حجاب کے استعمال پر ان کے والد ان کے لیے فکر مند تھے کہ کہیں ان پر حملہ نہ ہوجائے۔ وہ خود بھی اس بارے میں فکر مند تھیں۔ تاہم جب انہوں نے مسلسل آٹھ روز تک حجاب استعمال کیا تو انھیں اس کے مثبت پہلوؤں کے بارے میں پتا چلا۔ ان کا کہنا ہے کہ’’اب میں ہمیشہ حجاب پہننے کی کوشش کرتی ہوں، تاہم میرے خیال میں ایک غیر مسلم عورت ہونے کی وجہ سے یہ اب محض ایک فیشن نہیں ہے کیونکہ اب مجھے اس کے مثبت پہلو معلوم ہیں‘‘۔

سوشل میڈیا پر اس مہم کو لے کر چلنے والوں کا خیال ہے کہ حجاب کے ساتھ محکوم کے لفظ کا استعمال زیادتی ہے اور وہ اس لفظ کے استعمال پر تنگ آگئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔  خواتین کی اکثریت جن میں نو عمر بھی ہیں اور ادھیڑ عمر اور بوڑھی خواتین بھی، اس دعوے کو مسترد کرتی ہیں کہ خواتین حجاب کا استعمال اپنے خاندان والوں کی زبردستی اور اصرار پر کرتی ہیں۔ ان کے مطابق حجاب کا عالمی دن منانے کا مقصد دنیا کو یہ باور کرنا ہے کہ خواتین حجاب کا استعمال اپنی مرضی سے کرتی ہیں اور اس کے لیے انہیں ہر معاشرے میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔