March 29th, 2024 (1445رمضان19)

بچوں کے روز مرہ کے مسائل اور دیکھ بھال

تحریر: ڈاکٹر خالد زبیری

پیٹ درد:
شیر خوار بچوں میں پیٹ کا درد ایک عام مسئلہ ہے جس میں بچہ تکلیف کے باعث اپنی ٹانگوں کو اکڑا کر چیختا ہے۔ بچہ درد سے چیخ رہا ہوتا ہے تو ماں کے علاوہ پورا خاندان اپنے آپ کو ایک مصیبت میں محسوس کرتا ہے۔ جس کا حل ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اگرچہ بعض جسمانی یا اندرونی خرابیاں صرف معالج کی مدد سے ہی حل ہو سکتی ہیں۔ لیکن عام بچوں کے سلسلے میں والدین اگر کچھ سمجھداری سے کام لیں تو ان کو بھی اور بچے کو بھی اس سے راحت مل سکتی ہے۔
عموماً بچوں کے پیٹ کا یہ درد تین چار ماہ میں ختم ہو جاتا ہے۔
وجوہات
یوں تو اس پیٹ کے درد کی وجہ کے بارے میں یقینی طور پر کہنا مشکل ہے مگر اس کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں ۔
گیس: پیٹ کے درد کی سب سے واضح علامت یہ ہے کہ بچہ گیس خارج کرتا ہے اور اس کا پیٹ پھول جاتا ہے ۔ یہ دونوں چیزیں انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہیں اور عموماً زیادہ دودھ پینے کے بعدیہ علامات شروع ہو جاتی ہیں ۔ بچے کی تکلیف بڑھ جاتی ہے اور اگر یہ پہلے سے موجود ہو تو دودھ پینے کے بعد اس میں اور شدت آ جاتی ہے۔
آخر بچے کے پیٹ میں گیس آتی کہاں سے ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دودھ پینے کے دوران( بالخصوص بوتل سے ) وہ کافی زیادہ ہوا دودھ کے ساتھ نگل جاتا ہے ۔ دوسری صورت میں گیس اندرونی طور پر پیدا ہوتی ہے ۔ یہ گیس عموماً بڑی آنت میں پیدا ہوتی ہے کیونکہ یہاں ایسے جراثیم موجود ہوتے ہیں جو پروٹینز اور شکر کو توڑ کر مختلف گیسوں میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔
اگر بچہ بوتل سے دودھ پی رہا ہوتو وہ اوور فیڈنگ( زاد مقدار) میں دودھ پی سکتا ہے جس سے اس کا پیٹ زیادہ بھر جائے گا اور وہ تکلیف کا باعث ہو گا ۔ اس مشکل سے بچنے کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ دودھ کی مقدار کم کر دی جائے ۔ اس سے بظاہر یوں محسوس ہو گا کہ بچہ بھوکا رہ گیا ہے لیکن اصل میں بچہ اتنا بھوکا نہیں ہوتا جتنا نپل کو چوسنا اس کی عادت اور نفسیاتی ضرورت بن چکی ہوتی ہے ۔
اگر اس حالت میں بچہ تمام دودھ کو ہضم بھی کر لے تب بھی ضرورت سے زیادہ بھرا ہوا پیٹ بے آرامی کا باعث ہو سکتا ہے ۔
بچہ دودھ پینے کے دوران ہوا بھی ساتھ ساتھ نگلتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ مائیں دودھ پلانے کے بعد بچے کو عمودی حالت میں رکھتی ہیں تاکہ ڈکار آ کر نگلی ہوئی ہوا باہر نکل جائے ۔
بعض اوقات بچے بہت زیادہ ہوا نگل جاتے ہیں، خاص طور پر شروع میں ۔ اگر دودھ پلانے سے پیشتر نپل چیک کر لیا جائے کہ اس کے سوراخ بند یا تنگ تو نہیں ہیں ۔ یا نپل بوتل کے ساتھ صحیح طور پر کسا ہوا ہے تو بچے کے ہوا نگلنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں ۔ بوتل کو ایسے پکڑنا چاہیے کہ بچے کے من میں دودھ ہی جائے اور ہوا نہ جائے ۔
ماں کا دودھ پینے کی صورت میںاوور فیڈنگ( زائد مقدار) کا احتمال نہیں رہتا کیونکہ دودھ پینے کے ساتھ ساتھ چھاتیوں میں اس کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے ۔
بعض دوائیں بھی مشکل صورتحال میں معالج کے مشورے سے استعمال کی جا سکتی ہیں ۔ جو کہ نگلی ہوئی ہوا کو چھوٹے چھوٹے بلبلوں میں تقسیم کر دیتی ہیں تاکہ وہ آسانی سے باہر نکل جائیں ۔
حساسیت( الرجی)
پیٹ کے درد کا ایک سبب دودھ سے پیدا ہونے والی حساسیت بھی ہے ۔ ڈبے کا دودھ اگرچہ احتیاط سے تیار کیا جاتا ہے لیکن اس میں موجود پروٹین بعض بچوں کے لیے ٹھیک نہیں ہوتے ۔ ان سے آنتوں میں رد عمل کے طورپر سوجن پیدا ہو سکتی ہے ۔ اگزیما کی طرح جسم پر لال دھبے(Rash) یا بہتی ہوئی ناک حساسیت( الرجی) کی علامت ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ دودھ کی حساسیت کے باوجود یہ علامات پیدا نہ ہوں اور صرف پیٹ کا درد ہی اس کی علامت ہو ۔
یہ علامات گئے یا بھینس کے دودھ سے بھی پیدا ہو سکتی ہیں ۔ اس طرح سے پیدا ہونے والی الرجی کی تشخیص مشکل ہوتی ہے لیکن اس کا علاج سادہ ہے وہ یہ کہ گائے کے دودھ کی بجائے سویا بین سے حاصل کردہ ڈبے کا دودھ دیا جائے جو بازار میں دستیاب ہے ۔ پیٹ کے درد کی ان وجوہات کے علاوہ دوسرے اسباب بھی ہو سکتے ہیں ۔ اس صورت میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی سمجھدار ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے ۔ اس کا علاج جتنی جلد ہوجائے بہتر ہے کیونکہ یہ ایک قسم کا سائیکل (چکر) سا بن جاتا ہے جس میں بچہ درد سے چیختا چلاتا ہے اور ہوا کی مزید مقدار نگل اتا ہے جس سے اس کی تکلیف میں مزید اضافہ ہ جاتا ہے لیکن اس چکر(سائیکل) کو سمجھداری سے توڑا جاسکتا ہے ۔
علاج و احتیاطی تدابیر
مائیں بچے کے درد کا علاج مناسب احتیاطی تدابیر سے کر سکتی ہیں ۔
٭ ہر دفعہ دودھ پلانے کے بعد ڈکار دلائیں اور اس کے بعد بھی کچھ دیر کندھے سے لگا کر سیدھا رکھیں ۔
٭ بچے کوپیٹ کے بل لٹانے سے بھی آرام ملتا ہے یا کندھے سے لگا کر سہلانے سے بھی آرام آتا ہے ۔ اگر آپ بچے کو اپنی گود میں ایسے بٹھائیں کہ اس کے پیٹ پر آپ کا ہاتھ ہو توبھی وہ آرام محسوس کرتا ہے ۔
٭ بعض دفعہ بچے کو تھوڑا آگے پیچھے جھولانے سے یا گاڑی میں بٹھا کر سواری کرانے سے بھی آرام ملتا ہے ۔
ماں کی خوراک کا اثر:
بعض دفعہ ماں محسوس کرتی ہے کہ وہ کوئی خاص غذا لیتی ہے تو بچہ بے چین ہو جاتا ہے اور روتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ماں کی غذا کا کوئی جز دودھ سے بچے میں پہنچ کر اسے تکلیف پہنچاتا ہے ۔ یہ عمل کسی بھی غذا سے ہو سکتا ہے اور صرف ایسا محسوس ہوتو ماں اس غذا سے پرہیز کر کے بچہ کو آرام پہنچا سکتی ہے ۔
٭ اگر بچہ ڈبے کا دودھ پی رہا ہو تو ایسے فارمولے کے بجائے جو گائے کے دودھ سے تیار کیا گیا ہو ۔ ایسا فارمولا استعمال کریں ۔جو سویا بین کے آٹے سے تیار کیا گیا ہو ۔ اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ بچے کو دودھ کی حساسیت تو نہیں ہے یا آنتوںمیں خامرے(Enzyme) کم مقدار میں تو پیدا نہیں ہو رہے ۔ اندازہ لگایا ہے کہ ایشیائی ملکوں کے اکثر باشندوں میں دودھ کی شکر توڑنے والے خامرے کی مقدار کم ہوتی ہے یا ہوتی ہی نہیں ۔ اس لیے دودھ کی حساسیت کا مرض ان علاقوں میں عام پایا جاتا ہے ۔
ان تمام تدابیر کے باوجود اگر کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہو تو اپنے ڈاکٹر سے اس سلسلے میں فوری مشورہ طلب کریں۔ مناسب اور بر وقت طبی مشورے کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا۔
بچوں کی قے:
دودھ پینے کے بعد بچے عام طور پرتھوڑا بہت جما ہوا دودھ باہر نکال دیتے ہیں ۔ایسے میں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس طرح دودھ اُلٹنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقام جہاں خوراک کی نالی معدے سے جا کر ملتی ہے ، اس کی پوری طرح نشوونما نہیں ہوئی ہوتی لہٰذا کچھ دودھ اُلٹ آتا ہے ۔ یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں ہوتی ۔ عمر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ جوں جوں اندرونی اعضاء تکمیل کے مراحل طے کرتے جاتے ہیں یہ قے خود بخود بند ہو جاتی ہے ۔ دودھ پینے کے بعد چونکہ بچوں میں اس قے کا امکان ہوتا ہے اس لیے انہیں سیدھا یا پشت کے بل نہیں لٹانا چاہیے ۔ بہتر ہو دودھ پلانے کے بعد بچے کو تقریباً آدھی لیٹی اور بیٹھی پوزیشن( تقریباً 30 سے45 ڈگری) پر لٹائیں ۔ بعض اوقات بچوں کو یہ قے ضرورت سے زیادہ مقدار میں آنے لگتی ہے ۔ اس کو دو طریقوں سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ اول تو یہ کہ جتنا دودھ آپ بچے کو چوبیس گھنٹوں میں دیتی ہیں اتنا ہی دودھ یادہ مرتبہ میں کم مقدار میں دیں ۔ مثال کے طور پر اگر آپ چوبیس گھنٹوں میں 24 اونس دودھ چھ مرتبہ میں دیتی ہیں تو اس مقدار کو بارہ مرتبہ میں دیں ۔ یعنی ہر مرتبہ چار اونس کی بجائے دو اونس کی ہو ۔ اس طرح دودھ کی مقدار کم ہو جانے کی وجہ سے معدے اور خوراک کی نالی کے ملاپ پر واقع عضلات پر دبائو کم پڑے گا اور قے کے امکانات کم ہو جائیں گے ۔
بچوں کی صحت مند عادتیں بنانا:
نئے مہمان کی آمد خاندان کے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے ۔ نومولود کی ضروریات محدود ہوتی ہیں۔ اسے بہتر جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے مناسب خوراک، احساس، تحفظ اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن جو بچہ مسلسل توجہ حاصل کرنے کے لیے چیختا چلاتا رہتا ہے وہ اپنے والدین کے لیے اور گھر کے دیگر افراد کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتا ہے ۔ والدین سمجھداری سے کام لے کر شروع سے ہی بچے کو جبکہ وہ کافی حساس ہوتا ہے بہتر طور پر ٹریننگ دے سکتے ہیں اس لیے بچوں کی پرورش کے لیے کوئی مخصوص سخت قوانین نہیں بنائے جا سکتے ۔ البتہ چند موٹی باتوں پر عمل کرنا چاہیے ۔
٭ نومولود بچے کو اگر مناب غذا ملتی رہے تو وہ اس وقت تک سویا رہتا ہے جب تک اسے مزید خوراک کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔
٭ اور وہ سویا ہوا ہو تو اسے جگانا مناسب نہیں ہے ۔
٭ چھوٹا بچہ خوراک کے وقفوں کے درمیان اگر چیختا چلاتا ہے تو عموماً کسی تکلیف کے باعث ایسا کرتا ہے لیکن سونے کے بجائے آرام سے پڑا رہے تو بھی اسے ہاتھوں میں اٹھانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
٭ بچہ جب تک ماں کا دودھ پیتا ہے عموماً راحت اور آرام سے رہتا ہے لیکن کب مائیں فیشن یا مجبوری کے تحت بچے کو اوپری دودھ دینا شروع کر دیتی ہیں تو مسائل کی ابتداء ہو سکتی ہے اگر اس دودھ کی تیاری میں مناسب احتیاط نہ کی جائے ، دودھ صاف اور جراثیم سے پاک پانی میں تیار نہ ہو ، دودھ کی بوتل مناسب طریقے سے صاف نہ کی ہو تو بچہ بڑی آسانی سے پیٹ کے امراض کا شکار ہو جاتا ہے ۔
کنڈیشننگ:
٭
والدین کے بعض مخصوص اعمال سے بچے کو کچھ مخصوص عادتیں اپنا لیتے ہیں جسے کنڈیشننگ( کسی اعمال کی بناء پر رد عمل) کہا جاتا ہے ۔
٭ اگر بچہ دیر تک چلاتا رہتا ہے تو وہ بھی یہ بات سیکھ جاتا ہے کہ توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے اگر آپ اسے فوراً اٹھا کر خوراک مہیا کریں گے تو اسے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جب بھی وہ چلائے گا اسے ٰخوراک مل جائے گی(کنڈیشننگ)
٭ اگر اسے فوراً اٹھا کر پیار کیا جائے تو وہ امید کرنے لگتا ہے کہ ہمیشہ اسے رونے کے بعد پیار ہی ملے گا۔(کنڈیشننگ)
اگر دودھ پلانے کے بعد سونے میں اس کی مدد اور حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ یہ بات بھی سیکھ جاتا ہے کہ خوراک کے بعد سونا چاہیے ۔
٭ ریڈیو کی ہلکی موسیقی، ماں کی لوری یا گھڑی کی ٹک ٹک اسے سونے میں مدد دے سکتی ہے ۔
موسم کے لحاظ سے مناسب لباس:
خوراک کے علاوہ بچے کے لباس پر توجہ دینا بھی ضروری ہے جو کہ موسم کی مناسبت سے لیکن قدرے ڈھیلا اور وزن میں ہلکا ہونا چاہیے ۔ عام سوتی کپڑے سے تیار شدہ لباس سب سے بہتر ہوتا ہے ۔ مصنوعی ریشوں سے تیار کردہ لباس سے بچے کو تکلیف یا الرجی ہو سکتی ہے ۔
سردیوں میں بچے کے پیٹ اور سینے کو ہاتھ سے چھو کر دیکھنا چاہیے اور اس کی ضرورت کے مطابق کپڑے پہنانے چاہییں ، ٹھنڈ ہو تو سر پر ٹوپا اورپائوں میں موزے بھی پہنانا چاہییں ۔ اسی طرح ہاتھ پائوں کو بھی چھو کر دیکھ لینا چاہیے اور اگر وہ ٹھنڈے ہوں تو انہیں بھی ڈھانپ لینا چاہیے البتہ غیر ضروری طور پر بہت زیادہ کپڑے اڑھانا بھی بچے کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ بچہ گرم لگ رہا ہو تو اس کے کپڑے کم کریں ۔
گرمی کے موسم میں ہلکا سوتی لباس زیادہ مناسب ہے ۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ چھوٹے بچے سردی کی نسبت گرمی سے کم متاثر ہوتے ہیں ۔
نو زائیدہ بچے کا غسل:
بچوں کو بہت زیادہ نہلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ چھوٹے بچوں کا جسم اتنی جلدی گندا نہیں ہوتا جتنا بڑی عمر کے بچوں کو ہوتا رہتا ہے ۔ بچے کو بار بار نہلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے ایک تو اس کے چھوٹے سے جسم سے… تیزی سے خارج ہو جاتی ہے ۔ دوسرے بچے کے جسم پر موجودہ حفاظتی چکنائی دھل کر ضائع ہو جاتی ہے اور یوں بچے کی جلد ضرورت سے زیادہ حساس ہو کر متعدی امراض کا باعث بن سکتی ہے ہفتے میں دو تین بار بچے کے لیے غسل کافی ہے ۔
٭نہلانے کے لیے جو پانی استعمال کریں اس کا صاف ستھرا اور مناسب درجہ حرارت پر ہونا چاہیے۔
٭ سردی کے موسم میں جس کمرے میں یا باتھ روم میں بے کو نہلائیں وہ بھی مناسب حد تک گرم ہونا چاہیے اور بچے کے جسم سے اس وقت لباس اتاریں جب نہلانے کی تمام تیاری مکمل ہو چکی ہو ۔
٭ بچے کو نہلانے کا عمل طویل نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی بچے کے جسم کے نازک حصوں کو رگڑ رگڑ کر دھونا مناسب ہے ۔
٭نہلانے کے بعد بچے کو خشک کر کے صاف ستھرے تولیے میں لپیٹ لیں ۔
بچوں کے دانت:
عموماً سات ماہ کی عمر میں بچوں کے دانت نکلنے لگتے ہیں اور ڈھائی سال کی عمر تک میں دانت نکل آتے ہیں ۔ اس دوران میں بچوں کے مسوڑھوں میں بے چینی ہوتی ہے ۔ بچہ ہرچیز منہ میں ڈالتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ چیزوں میں جراثیم بھی ہوتے ہیں جو بچے میںدست، اُلٹی ، کھانسی وغیرہ کا باعث بنتے ہیں ۔ بعض دفعہ مسوڑھوں میں بے چینی سے بچہ روتا ہے یا غیر معمولی بے چین ہونے لگتا ہے ۔ اس دوران صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا چاہیے ضرورت ہو تو درد کی دوا دی جا سکتی ہے ۔