April 24th, 2024 (1445شوال16)

صحت مند رہنے کے رہنما اصول

ہم ناسمجھی میں بھی اپنی تندرستی کو برباد کرتے ہیں۔ ہمیں بہت سی باتوں کا علم ہی نہیں۔ لہٰذا ہم اپنے جسم کی مجموعی طور پر دیکھ بھال نہیں کرسکتے۔ ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں اس ضروری تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ ہمارے طلبہ کو جغرافیہ اور علم سیارگان کی ہر بات کا علم ہے۔ وہ زمین، چاند، سورج اور پرانے اور نئے سیارگان کے وجود میں آنے کی تواریخ اور رفتار بتاسکتے ہیں لیکن چراغ تلے اندھیرا کی کہاوت کے مصداق انہیں اپنے جسم کے اعضا اور اُن کے طرز عمل کا کچھ پتا نہیں۔
لہٰذا ہماری بیماریوں کا خاص سبب ہماری ہی بے پروائی، جہالت اور بے قاعدگی ہے۔ اگر ہم تندرستی کے اصولوں کی واقفیت حاصل کرلیں، اپنے جسم کو احتیاط کے ساتھ استعمال میں لائیں اور مناسب طور سے قدرتی اصولوں کی پابندی اختیار کریں تو ہم بیشتر امراض کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے اوپر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ بیماریاں ہماری بے ضابطگی کا ہی نتیجہ ہوتی ہیں۔ بیماریوں کو دور بھگادینے سے ہی ہم پوری عمر حاصل کرپائیں گے تندرستی کے اصولوں کی مناسب پابندی کرنے سے جسم کی قوت کم از کم 30 سال اور بڑھ سکتی ہے۔
ایک بات اور۔ ہماری کئی بیماریاں فرضی یا خیالی ہیں۔ وہ خیالی طور سے پیدا ہوتی ہیں اور خیالی طاقت سے ہی دور بھی بھگائی جاسکتی ہیں۔ آپ کسی دن دماغ میں بٹھا لیجیے کہ آپ کو کچھ بخار ہوگیا ہے۔ پھر دیکھیے بخار ہوجاتا ہے یا نہیں اور کچھ نہیں تو سستی اور حرارت ضرور محسوس ہونے لگے گی اور آپ سے کوئی کام کرتے نہیں بنے گا۔ پھر آپ دماغ میں یہ خیال لائیے کہ آپ کو کچھ نہیں ہوا ہے بس فوراً آپ کی سستی دور ہوجائے گی۔
اچھی صحت سے نہ صرف یہ کہ انسان بیماریوں سے مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں جو سب سے بڑا انعام قدرت کی طرف سے اُسے ملتا ہے وہ بڑھاپے کی خوش گزاری ہے جس میں تاحیات اسے لمبی اور اُلجھی ہوئی بیماریوں سے کبھی بھی سابقہ پیش نہیں آتا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان اصولوں پر کار بند ہونے سے آپ کا کچھ خرچ نہیں ہوتا بس تھوڑی سی قوت ارادی کا کام تو ضرور ہے۔ سو دنیا میں وہ کونسی شے ہے جسے انسان بغیر ارادہ عمل کے حامل کرسکتا ہے۔
خوراک اچھی، تو صحت بھی اچھی!
یہ بات تجربے سے ثابت ہوچکی ہے کہ انسان جس قدر سادہ لباس اور سادہ غذا استعمال کرتا ہے اسی قدر زیادہ عمر زندہ اور تندرست رہتا ہے فیشن پرستی اور بسیار خوری انسان کو جلد ہی لقمہ اجل بنادیتی ہے۔ رشی، منی، اولیا، سادھو، فقیر اور درویش لوگ عموماً پھل اور تازہ سبزی کھا کر سو سو ڈیڑھ ڈیڑھ سو سال زندہ رہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ دل کی ناپاکی تمام امراض کی جڑ ہے اور دل کی پاکیزگی تمام راحتوں کا سرچشمہ ہے، سادہ غذا، طبیعت میں اعتدال اور عمر میں اضافہ کرتی ہے مرکب و مرغن غذا عمر کو کم کرتی ہے۔
بہترین غذا وہ ہے جو ہمارے دادا پڑ دادا کھاتے تھے۔ وہ کیا کھاتے تھے۔ روٹی، چاول، دال، دودھ، دہی، چھاچھ، شلغم، مولی، ساگ، شکر، گڑ وہ عموماً ایک ہی چیز سے کھانا کھاتے تھے۔ کبھی چاچھ سے، کبھی ساگ سے، کبھی دال سے، اس طرح سادہ خوراک سے وہ تندرست و توانا رہتے تھے۔ آج دو تین چار سبزیوں کے بغیر ہماری گزر نہیں۔ سلونا، میٹھا، کھٹا تینوں س ہر مرتبہ ہماری تھالی میں ہونے لازمی سمجھے جاتے ہیں۔ گھی کو سبزیوں میں پکا پکا کر اور جلا جلا کر غیر مفید اور ثقیل بنادینا فی زمانہ ضروری ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں کھٹائی، چاٹ، لیمن، آئس کریم، ملائی کی برف، برف میں لگی ہوئی بوتل یا برف میں لگا ہوا کوئی بھی میوہ جس کے کھانے یا پینے سے دانت یخ ہوجائیں۔ آج کا من بھاتا کھاجاہے، اور پھر کچالو، گوشت کی بوٹی، سخت اُبلا ہوا انڈا تیل کے پکوڑے، میدہ کی چیزیں، ربڑی، کھویا، چائے اور سگریٹ کی بھی بھرمار ہورہی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ فعل ہضم خراب ہو کر خوراک میں سے اتنا صاف خون پیدا نہیں ہوتا جتنا ہماری جسمانی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ لہٰذا کافی طاقت بخش دوا کھاتے ہوئے بھی آج ہم لوگ بجائے بڑھنے کے گھٹتے جارہے ہیں اور ہمارا کھایا پیا مٹی میں مل جاتا ہے۔
اگر آپ اپنی جوانی کو عرصہ دراز تک قائم رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو خوراک کے متعلق بہت احتیاط رکھنی چاہیے، دن میں دو بار سے زیادہ کھانا نہ کھانا چاہیے۔ خوراک صرف اسی قدر کھائیں جتنی کہ آپ کی صحت کے لیے ضروری ہے کیوں کہ زیادہ کھانے سے اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے سے جسمانی مشینری کمزور ہوجاتی ہے، دائمی شباب کی خواہش ہے تو سادہ غذا اور سادہ لباس پہن کر اعتدال سے زندگی بسر کیجیے۔ بس یہی شباب کی کنجی ہے۔
خوراک کے متعلق محض یہ دو باتیں اہمیت رکھیں
کھانا نرم ہو یا سخت، خوب چبا چبا کر کھانا چاہیے۔ کھانے کو دانتوں سے خوب پیس کر لعاب سے ملادینا چاہیے، ورنہ وہ آسانی سے ہضم نہیں ہوسکے گا۔ معدہ میں دانت تو ہیں نہیں، کھانا کیسا بھی ہو، اگر اُسے چبا کر لعاب سے ملادیا جائے تو وہ کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ سخت سے سخت چیز بھی ہضم ہو کر خون اور گوشت بنائے گی۔ کھانا کھانے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ اس میں کم از کم نصف گھنٹہ لگانا چاہیے اور اگر ایک گھنٹہ لگ جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ آہستہ اور چبا کر کھانے میں چونکہ دیر لگتی ہے، آپ یہ سمجھ کر کہ میں بہت دیرے سے کھا رہا ہوں، پیٹ بھر کے کھائے بغیر ہی دستر خوان سے اُٹھ کھڑے ہوں گے، جس سے بسیار خوری کا سدباب ہمیشہ کے لیے ہوجائے گا۔
کھانا کھانے کے بعد کم از کم پندرہ بیس منٹ آرام کرنا چاہیے، کھانا کھانے کے بعد تیز چلنا بہت نقصان دہ ہے اور دوڑنا تو موت کو دعوت دینا ہے معدے کو اپنا کام کرنے کا پورا موقع دیجیے۔ بیچ بیچ میں کچھ کھانے نہ لگ جائیے۔ پھر کبھی معدہ خراب نہ ہوگا۔
گرم اور سرد تاثیر والی غذائیں ساتھ ساتھ نہ کھائیے۔ علاوہ ازیں موسم کے غیر موافق اور اپنی خواہش کے برعکس کھانا بھی نہیں کھانا چاہیے۔ ورنہ کھانا ٹھیک طرح سے ہضم نہ ہوگا۔ کھانے کی بھی ایک سائنس ہے اور ہمیں اپنی غذا کا احتیاط کے ساتھ انتخاب کرنا چاہیے۔
پینے کی چیزوں کے متعلق خاص ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں شراب خوراک کا حصہ نہیں ہے۔ شراب کا تو نام بھی نہیں لینا چاہیے۔ دراصل دودھ سے بڑھ کر پینے کی چیز اور کوئی نہیں ہے۔ اسے تمام دنیا میں بلند مقام حاصل ہے۔ بچپن میں اسی نے ہماری پرورش کی یہ اکیلے ہی جسم کی تمام ضرورت پوری کرسکتا ہے اگر کسی کا بدن کمزور اور لاغر ہوگیا ہو اور صحت تباہ ہوگئی ہو تو وہ محض دودھ سے اپنی کھوئی ہوئی تندرستی کو واپس لاسکتا ہے اور طاقت ور بن سکتا ہے۔ دودھ کا ساتھی پھل ہے۔ ڈاکٹروں کی طرف سے جواب دیئے جانے کے بعد بھی کئی مریض محض پھلوں اور دودھ کے استعمال سے پھر تندرستی ہوجاتے ہیں۔
آپ کی خواہش ہوگی کہ آپ کو کسی وقت کے کھانے سے کوئی تکلیف یا شکایت پیدا نہ ہو۔ آپ اس خواہش کو پورا کرسکتے ہیں۔ مقررہ وقت پر کھانا اور کھانے کو پورے طور پر چبانا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ عادت ڈالیے کہ آپ وقت مقررہ پر کھانا کھایا کریں اور غذا کو اچھی طرح چبایا کریں۔ پورے طور پر چبائے بغیر گھبراہٹ یا جلدی میں ایک وقت کھانا کھانا پچھلے کئی دفعہ کے صحیح طریقے پر کھائے ہوئے کھانوں کو ختم کرسکتا ہے۔
دو وقت سے زیادہ نہ کھائیے
اور مہینہ میں دو تین بار فاقہ کیجیے

دو وقت سے زیادہ کھانا بھی بسیار خوری کی زد میں آتا ہے، تھوڑا تھوڑا کھائو مگر تین چار وقت، کھانے کا اصول صحیح نہیں ہے۔ بار بار کھانے سے سب سے بڑا نقصان جو پورے نظام ہضم کو پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے ہمہ وقت مصروف کار رہنا پڑتا ہے اور کچھ لمحے بھی آرام کے نہیں ملتے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پندرہ بیس سال کے اندر ہی معدہ، جگر اور آنتیں اس محنت کی تاب نہ لا کر مختلف علامات کے ذریعے سے ضعف و کمزوری کا اظہار کرنے لگتی ہیں اور انسان بڑھاپے میں پیٹ کی بیماریوں کا مستقل طور پر مریض بن کر رہ جاتا ہے۔
ان دونوں کھانوں کے درمیان البتہ پھل اور کئی ترکاریاں استعمال کرسکتے ہیں، گرمی میں شربت اور جاڑے میں چائے کے استعمال میں بھی مضائقہ نہیں لیکن اگر دودھ پینا ہو تو کھانے میں اسی نسبت سے کمی کرو تا کہ دودھ کی گنجائش نکل آئے۔

بشکریہ جسارت