April 19th, 2024 (1445شوال10)

آؤ مل کر عید کی سچی خوشی منائیں

 

عالیہ شمیم

 

عید کے نا م کے سا تھ ہی چہروں پر چمک آجا تی ہے ،خوشی و انبسا ط سے اطرا ف کا ما حول خوش کن نظر آ رہا ہو تا ہے چہا ر جانب بچو ں کی پکاریں، رنگ رنگے پیراہن، بناؤ سنگھار، مہندی سے سجے ہاتھ، گھروں سے امڈتی خوشبؤیں، روایتی و جدیدیت کی خوشبو میں رچے بسے پکوان، میل ملاپ سلام دعا، عید کی خوشیوں کو دوبالا کررہے ہوتے ہیں۔ کیا امیر کیا غریب، سب اپنی اپنی استعداد کے مطا بق عید کی خوشیاں منانے میں مگن ہیں اور کیوں نہ منائیں؟ عید امت مسلمہ کے لیے رب کا انعام بھی تو ہے۔ خوشی کے موقع پر خوشی منانا اور اس کا اظہار کرنا انسان کا فطری تقاضہ بھی ہے، لیکن تھو ڑی دیر کے لیے دل کو تو ٹٹول کر دیکھ لیں، کیا دل واقعی خوش ہے؟ کوئی کسک تو دل میں نہیں پنپ رہی، کوئی پھانس تو دل میں نہیں اٹکی ہوئی، بدگمانیوں کی زہریلی سوچوں نے تو دل کو آلودہ نہیں کر رکھا، اپنے ہی جسم کو تو زخم زخم نہیں کر رکھا؟ اگر ایسا ہے تو عید کی خوشیاں مصنوعی ہیں، ہر وہ خوشی جس میں اپنے عزیز و اقارب، بھا ئی، بہن، اپنے دوست و پڑوسی آپ کی خوشی میں شریک نہ ہوں آپ سے ناراض ہوں تو وہ خوشی نہ صرف ماند پڑجائے گی، ادھوری رہے گی بلکہ اللہ کی بھی ناراضگی کا باعث ہوگی ۔

عید رمضان المبارک کے روزوں کا انعا م ہے اور اخلاص نیت کے ساتھ رب کے حضور کیے جانے والے

نیک اعمال کی قبولیت کے یقین کا ثمر بھی لیکن جب زبانیں نشتر بن جائیں، نفسانفسی و خود غرضی کے بادل امڈ آئیں، اپنے ہی بھائی کا قتل عام ہوتے دیکھ کر بھی بے حسی طاری رہے، دلوں میں بغض و عداوت، زبانوں میں لفظوں کی کاٹ، برا گُمان، حسد و انتقام کی آگ، اشتعال انگیز جذبات، اور غیبت و بدگوئی سے زبانیں آراستہ رہیں تو پھر یہ ماہ رمضان میں کیے جانے والی تمام نیکیوں کو اس طرح ادھیڑ کر رکھ دے گی جیسے کوئی سوت کات کر خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔

تو آئیے اب بھی وقت ہے پہلے دلوں کو صاف کرلیں، محبتو ں سے مالا مال کرلیں، ندامت کے آنسؤوں سے دلوں میں جمی بے حسی کو دھو ڈالیں۔ مسلمان مسلمان کا آئینہ ہے، ایک جسم کی مانند ہے، ایک عضو کو پہنچنے والی تکلیف کا درد پورا جسم محسوس کرتا ہے، فلسطین میں، غزہ میں ہمارے جگر گوشے جیسے کمسن بچوں کے سا تھ ہونے والا بہیمانہ سلوک کیا ہم کو عید سعید منانے دے گا؟ تڑپ کر بلک کر اپنی آواز کو ظلم کے خلاف بلند کرلیں، اقتدار کے ایوانوں کی مسندوں تک اپنا احتجاج پہنچادیں، اپنے والدین کو راضی کرلیں، اپنے روٹھے بہن بھائی کو منالیں، اپنی زبان کو محبتوں کی چاشنی سے میٹھا کرلیں، خود غرضی و نفسانیت کی حدود سے بھی دور رہیں پھر مل کر گلے لگ جائیں، ایک دوسرے کو “تقبل اللہ منا” کہہ کر عید کی مبارکباد کہیں، اور اس وقت دل کو ٹٹولیں تو سچی خوشی کے احساس سے دل مالا مال ہوگا۔ عید کی مسرتوں میں اپنے ان خاندانوں کو بھی یاد رکھیں جن کا آپ سے مذہب کا رشتہ ہے، انسانیت کا رشتہ ہے، جن کی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں کی ویرانیاں آپ کی مدد سے دور ہوجائیں گی، جہاں ہلال عید ان کے لیے بھی خوشیوں کا پیامبر ثابت ہوگا، بغیر کسی کسک کے، بغیر کسی پھانس کے دل کی سچی خوشی ہی قلب کو طمانیت سے معمور کرتی ہے، رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے تو عید اس کا پھل ہے، اس کسان کی طرح اپنے موسم بہار کو انفاق سے، ایثار سے، ہمدردی و غم گساری سے تعلق باللہ سے، عشق محبت سے سرشار مشن نبوی کی تکمیل میں اپنے اعمال سے سینچیں اور میٹھے پھل کی صورت عید کی خوشیاں منائیں