April 16th, 2024 (1445شوال7)

عید الفطر مسلمانوں کے اجتماعی تشکر کا دن

 

مولانا عبد الرشید راشد

عید الفطر کا یہ روزِ سیعد ایک اہم فریضے کی ادائیگی کے بعد آتا ہے جس میں مسلمان مسلسل ایک ماہ تک روحانی و اخلاقی تربیت پاتے ہیں۔ دن کو روزے رکھتے ہیں، یعنی خدا ئے بزرگ و برتر کی خوشنودی اور رضاجوئی کے لئے گھنٹوں بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہیں اور رات کو اسی ذات والا صفات کے حضور قیام و سجود کرتے ہیں اور نسانیت کے نام خدا کے آخری پیغام یعنی قرآن مجید کی تلاوت یا سماعت کرتے ہیں۔ خدا کی نصرت اوررحمت سے جب یہ کٹھن مراحل طے ہوجائیں تو اظہارِ تشکر و امتنان کے طور پر اگلے ماہ کے پہلے روز کو یومِ عید مناتے ہیں اور پھر شان و عظمت کے ساتھ لوگ جوق در جوق عید گاہوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ خوشبوؤں میں بسے ہوئے، نئے یا اجلے کپڑے زیب تن کیے ۔۔۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ ٰ الااللہ و اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کا ورد کرتے ہوئے۔ اس کے برعکس دوسری قوموں کے ہاں عیدیں آتی ضرور ہیں اور پورے جوش وخروش اور دھوم دھام سے منائی بھی جاتی ہیں مگر ان کا پس منظر کوئی جز وقتی واقعہ یا محض موسموں کا تغیر و تبدل ہوتا ہے۔ کسی کے ہاں جنگی فتح کے عنوان پر، کسی کے ہاں نو روز کے نام پر تہوار منائے جاتے ہیں۔ کوئی اپنے دینی قائد اور قومی لیڈر کے یومِ پیدائش کو یومِ عید قرار دیتا ہے۔ اسلام کی عید ان سے قطعی مختلف ہے۔ اسلام عظیم الشان نیکیوں اور انقلاب آفرین خوبیوں کی بنیاد پر یوم عید مقرر کرتا ہے، جو انسانیت کے لیے ہمہ گیر، ہمہ جہت اور ہمہ وقت ہوں ، جن کا تعلق کسی خاص قوم، نسب و حسب یا علاقے سے نہ ہو بلکہ اس کا تعلق نوع انسانی سے ہو اور عالم گیر ہو۔

علاوہ ازیں اسلام کی ہر عید ہر فرد کی اپنی عید نہین کہ جیسے چاہے منائے اور جو چاہے کر گزرے، کسی کو کسی کے ساتھ کوئی سروکار نہ ہو۔بلکہ یہاں تو ابنائے وطن کو عید میں شریک کرنے کا حکم ہے، اور وہ جو مالی مجبوریوں اور معاشی دشواریوں کے سبب ان مسرتوں سے بہرہ ور نہیں ہوسکتے تو دوسرے مسلمانوں کے فرائض میں ہے کہ وہ ان سے مالی تعاون کریں اور عید سے پہلے پہلے انہیں اس قابل بنائیں کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے دوش بدوش خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔اس کے لیے تمام ملتِ اسلامیہ اور اس کے ہر فرد و بشر۔۔۔چاہے وہ معصوم بچہ ہو یا عمر رسیدہ بوڑھا،مرد ہو یا عورت۔۔۔ یہ لازم ہے کہ وہ صدقہ الفطر کو ادا کرکے غریبوں، ناداروں، یتیموں اور بے کسوں کی دستگیری کریں۔ حدیثِ رسول اللہ میں ہے کہ جو روزے دار مسلمان عید سے قبل (یا بعد) فطرانہ ادا نہیں کرتا اس کے روزے قبولیت کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔روزے کی قبولیت کے لیے فطرانے کو شرط قرار دے کر دراصل اسلام کی اس اسپرٹ(روح) کو ظاہر کیا گیا ہے جو اس کی غریب پروری اور انسانیت نوازی پر دلالت کرتی ہے۔ پھر اسلام کی عید محض کھیل تماشا، شور شرابا اور ہنگامہٓ ہا ؤ ہُو کا نام نہیں، یا فقط خوش لباسی اور خوش خوراکی سے عبارت نہیں،بلکہ یہ خدائے قدیر کی اجتماعی عبادت سے لے کر اخوت و مؤدت، ہمدردی اور محبت، خیرات اور فیاضی، پاکیزگی اور طہارت اور تنظیم و اتحاد جیسی اعلیٰ صفات کا مظہر ہے۔ حضور سرور کائنات نے فرمایا کہ جب مسلماننمازِ عید کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فخریہ انداز میں سوال کرتے ہیں کہ ’’میرے فرشتو! جو مزدور اپنی مزدوری مکمل کرلے اس کی جزاکیا ہے؟‘‘ فرشتے جواباََ عرض کریں گے کہ اے اللہ تعالیٰ اس کی جزا یہ ہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری مکمل دے دی جائے،تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے اطاعت گزار بندوں اور بندیوں نے میرے عائد کردہ فریضے کو بحسن و بخوبی ادا کردیا، مجھے اپنے جود و سخا، کرم و عطا اور عزت و جلال اور بلند منزلت کی قسم، میں ان کی دعاؤں کو ضرور پورا کروں گا اگرچہ کسی قدر تاخیر ہی سے سہی۔

غرض عید الفطر گونا گوں خوبیوں کا حامل ایک عظیم الشان تہوار ہے، جو اسلام کی عظمت، شوکت اور شاندار روایت کا امین ہے۔ اگر ہم عید کے ان عظیم دینی و اجتماعات کو کارآمد، مفید اور کثیر المقاصد بنانے کی تدابیر اختیار کریں تو ان اجتماعات سے دینی اور دنیاوی افادیت میں بہت اضافہ ہوسکتا ہے۔یہ احیائے دین اور اقامتِ دین کے لیے انتہائی مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں، مگر افسوس کہ ہم ان اجتماعات سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھارہے۔ یہ اجتماعات محض ہجوم مومنین ہوکر رہ گئے ہیں اور انہیں شکوہِ ملک و دین کا وہ مرتبہ حاصل نہیں جو آزاد قوموں کا شعار ہوتا ہے۔

بقول اقبالؒ

عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دین

عیدِ محکوماں ہجومِ مومنین

بشکریہ جسارت